ناکامی سے گھبرانانہیں

ناکامی سے گھبرانانہیں
(قاسم علی شاہ)
وہ پیدا ہوا تو اس کی دنیا اندھیر تھی۔سورج کی روشنی ، دھنک کے رنگ اورکائنات کا حسن اس کی نظروں سے پوشیدہ تھا ۔وہ والدین کا لاڈلا تھا۔ اپنے بچے کی اس معذوری پر ان کا دل کٹ کر رہ گیا۔تمام جمع پونجی لے کروہ اپنے لخت جگر کے علاج کے لیے نکل پڑے ۔انھوں نے ملک کے ہر معروف ڈاکٹر اور ہسپتال کا دروازہ کھٹکٹھایالیکن کہیں سے بھی شفایابی نہ مل سکی۔وہ مایوس ہوگئے لیکن بیٹے کی معذوری سے زیادہ انھیں معاشرتی رویوں نے دل شکستہ کیا ۔ بیٹے کو پرائمری اسکول میں داخل کروانا چاہا تو اندھا کہہ کر اس کومسترد کردیاگیا، چنانچہ اس کو اسپیشل ایجوکیشن میں داخل کروایا گیا ۔ اس کی آنکھوں میں اگر چہ روشنی نہیں تھی لیکن ذہانت بلا کی تھی ۔وہ سب سے قابل طالب علم بنااور اچھے نمبروں سے پرائمری کا امتحان پاس کیا ۔ہائی اسکو ل پہنچا تو پھر وہی بے حسی والا رویہ برقراررہااور جب وہ میٹرک میں پہنچا تواس کو سائنس میں داخلہ نہیں دیاگیا۔لیکن اس بار اس نے اپنے ساتھ ایک عہد کیا کہ زمانے نے مجھے جس محرومی کی وجہ سے ریجیکٹ کیا ہے اسی کے ساتھ میں کرکے دکھاؤں گا۔اس نے کورٹ میں کیس دائر کیا ، چھ مہینے بعد فیصلہ اس کے حق میں آگیا۔وہ سائنس کا سٹوڈنٹ بن گیااورمحنت کرنے میں جُت گیا۔اس کے ٹیچر ز اپنے لیکچرز آڈیو ریکارڈ کرکے اس کو دیتے اور وہ انھیں پوری توجہ کے ساتھ سنتا اورسمجھنے کی کوشش کرتا۔نتیجہ آیا تو اس نے 98فی صد نمبر حاصل کیے تھے۔ IIT(انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی)میں پڑھنا اس کا خواب تھالیکن بدقسمتی سے یہاں بھی اس کے اندھے پن کو نشانہ بنایاگیا۔دل شکستہ ہوکر وہ MIT(Massachusetts Institute of Technology)گیا جہاں اس کو فل اسکالرشپ کے ساتھ داخلہ مل گیا۔وہ یہاں کاپہلا نابینا طالب علم تھا جس نے اپنی گریجویشن مکمل کی ۔ 2012ئ میں سری کانت اپنے وطن آیااوریہاں اس نے ایک کمپنی کی بنیاد رکھی ۔ا س نے ایک انوکھا کام کیا ۔اس نے ایسے افراد کو نوکری پر رکھاجو تعلیم یافتہ اور قابل تھے لیکن اپنی کسی معذوری کی وجہ سے معاشرے نے انھیں ریجیکٹ کردیا تھا۔احساس محرومی کے مارے لیکن قابل ترین افراد کے ساتھ مل کراس نے دھوم مچادی اور کچھ ہی عرصے میں ترقی کی بلندیوں کو چھونے لگا۔وہ لڑکا جس کو اسکول ، یونیورسٹی اور اس معاشرے نے اندھاکہہ کر مسترد کیا تھاآج وہ45ملین پائونڈ کمپنی کا مالک ہے اور لوگ اس کو اپنا آئیڈیل کہتے ہیں۔وہ اپنی کامیابی کے بارے میں کہتاہے :
’’ لوگوں نے مجھے نابینا کہا لیکن میں نے خود کو معذور نہیں سمجھا ،جب بھی مجھے ٹھکرایا جاتاتو میں آسمان کی طرف دیکھ کر ایک ہی جملہ کہتا: میں نے کچھ کرکے دکھانا ہے۔‘‘
اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں استاد سبق دے کر امتحان لیتاہے لیکن زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔عام امتحان کے لیے ہم تیاری کرتے ہیں اور امتحان گزرجائے تو وہ سب کچھ بھی ہمارے ذہن سے نکل چکا ہوتاہے لیکن زندگی کے امتحانات ایسے ہوتے ہیں جن سے سیکھا ہوا سبق ہمیں یادرکھنا نہیں پڑتا بلکہ وہ دل و دماغ پر نقش ہوجاتاہے ۔اس کو Life Lessonکہاجاتا ہے ۔یہ ساری زندگی ہمارے ساتھ چلتاہے اور زندگی کے بڑے بڑے امتحانوں میں ہمارے کام آتاہے ۔ میں نے اپنی زندگی سے ایسے بہت سارے اسباق سیکھے ہیں جنھوں نے میری کامیابی میں میری مدد کی ہے۔ان میں سے ایک سبق یہ بھی ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں ناکامی کا سامناکرتاہے لیکن اگرو ہ ہمت نہ ہارے اور خوداعتمادی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرلے تو اس آزمائش کے بعدوہ اپنی سابقہ زندگی سے کئی گنا بہتر ہوکر سامنے آتاہے۔کسی بھی انسان کو یہ زندگی سونے کی پلیٹ میں نہیں ملتی بلکہ یہ مسائل اور مشکلا ت سے بھری ہوتی ہے۔میں نے کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی آزمائش ، مشکلات اور ناکامیوں سے خالی نہیں دیکھی۔دراصل ہماری زندگی میں ہونے والی کوئی بھی ترقی ان مسائل اور ناکامیوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔اگر کوئی شخص ناکامیوں سے آزاد زندگی چاہتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ترقی کرنا نہیں چاہتا۔
زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے یکایک انسان کے سامنے ایک مسئلہ آن کھڑاہوتاہے۔پہلے پہل وہ پریشان ہوجاتاہے ۔وہ اس مسئلے کا اور اپنی اوقات کا اندازہ لگاتاہے اور اس کے بعد دو قسم کے حالات ہوتے ہیں۔یاتو وہ اس مشکل سے گھبراکر پیچھے ہٹ جاتاہے یا پھر بلند ہمتی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتاہے۔یہ یاد رکھیں کہ ہر وہ انسان جو مسئلے کو اپنے لیے غنیمت سمجھتاہے اور اس کاسامنا کرنے کافیصلہ کرلیتاہے تو مسئلہ ختم ہوجانے کے بعد اس کے حوصلے اور ہمت کا قدکافی بڑھ چکا ہوتاہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ انسان کو بڑا بنالیتاہے اور اس کے حوصلے کو طاقتور کردیتاہے۔آپ نے تتلی دیکھی ہوگی ؟اس کے پر کس قدر خوب صورت اور رنگ برنگے ڈیزائن سے مزین ہوتے ہیں ۔غور سے دیکھنے پر انسان کے دل سے بے اختیار ماشاء اللہ نکلتاہے ۔لیکن آپ کو اس کے پروں کی خوب صورتی کا راز معلوم ہے؟ تتلی کابچہ جب لاروا کی صورت میں ہوتا ہے تو ایک کوکین نماچیز میں بند ہوتاہے جس کا منہ کافی تنگ ہوتاہے۔زندگی کے اگلے مرحلے میں قد م رکھنے کے لیے لاروا کو اس کوکین کے انتہائی تنگ منہ سے باہر آناہوتاہے اور جس قدر وہ زور لگاکر باہر آتاہے تو اسی قدر اس کے پروں کی رنگت اور ڈیزائننگ میں خوب صورتی آجاتی ہے۔
یہی مثال چوزے کی بھی ہے۔اس کو بھی انڈا توڑ کر باہر آناپڑتاہے اور اسی کی بدولت اس کو زندگی ملتی ہے ۔اگر کوئی انسان چوزے کے کمزور جسم پر رحم کھاکر انڈا توڑنے میں اس کی مدد کرلے توباہر نکل آنے کے باوجود وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہے گا۔کیوں کہ انڈا توڑنے کی مشقت سے قدرت نے اس کے جسم میں جو توانائی ڈالنی تھی وہ پراسس ہی ختم ہوگیا اور اب وہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہا۔
معروف ناول نگار نارمن کزنز کہتا ہے کہ زندگی کا المیہ موت نہیں بلکہ وہ موت ہے جو جیتے جی ہم اختیار کرلیتے ہیں۔
ناکامی کو دل سے قبول نہ کرنا اوراس کاسامنا نہ کرنے کا مطلب موت ہی ہے ۔یہ انسان کی ترقی اور آگے بڑھنے کی موت ہے ۔یہ ان مواقع کی بھی موت ہے جو ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد انسان کو ملتے ہیں۔ایک بڑاالمیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ناکامی کو ویلکم نہیں کیاجاتا۔یہاں ناکام ہونے کو بدقسمتی سمجھا جاتاہے اور جو بھی انسان ہمت سے کام لے کرکچھ نیا کرنے کی کوشش کرے اور ناکام ہوجائے تو لوگ حوصلہ دینے کے بجائے اسے طعنے دیتے ہیں کہ’’ کہا تھا نا کہ ہر چیز سے پنگا مت لو ، اب بھگتو۔‘‘ جبکہ ہم اگراسرائیل کاجائزہ لیں تو وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن وہاں 6ہزار سے زیادہ کمپنیاں اور سٹارٹ اپس موجود ہیں اور اسی وجہ سے اس کو’’The Startup Nation‘‘کاخطاب ملاہے۔ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں کسی بھی انسان کی ناکامی پر اس کو باتیں نہیں سنائی جاتیں بلکہ اس کامزید حوصلہ بڑھایاجاتاہے اور اسی وجہ سے وہ آج پوری دنیا کی معیشت پر چھایا ہواہے ۔
ناکامی زندگی کا ایک لازم حصہ ہے ۔آپ اس کو اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتے ۔ان ناکامیوں کو جھیل کر ہی آپ کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔کیوں کہ ہمیں لگ رہاہوتاہے کہ اب بس زندگی ختم ہوگئی لیکن یقین جانیے ، ہر ناکامی میں کامیابی کا ایک راستہ ضرور پوشیدہ ہوتاہے جس کو اگر پالیا جائے تو آپ The Bestبن کر نکلتے ہیں۔آپ نے بچپن میں سائیکل چلائی ہوگی اور لازمی بات ہے کہ گرے بھی ہوں گے ۔تو کیا آپ نے سائیکل چلانا چھوڑدی یا پھر چلانے میں مزید مہارت حاصل کی؟ دراصل ناکامی کامقصد بھی یہی ہے کہ وہ آپ کواپنا طریقہ بدلنے کا موقع دیتی ہے۔گاڑی چلاتے ہوئے آپ کے سامنے ٹریفک سگنلز آتے ہیں ۔ اگروہ ریڈ ہوں توچند منٹوں بعد وہ گرین بھی ہوجاتے ہیں جو یہی پیغام دیتے ہیں کہ مسائل سے مایوس نہ ہونا ، زندگی کی شاہراہ پر ہر وقت ریڈلائٹ نہیں ہوتی بلکہ ریڈ کے بعد گرین بھی ہوجاتی ہے اور آپ کے لیے راستے کھلتے ہیں۔
وہ انسان جو ناکام ہونے کے ڈر سے نیا قدم اٹھانے سے گھبراتاہے ، وہ ترقی نہیں کرسکتا، وہ ایک ہی جگہ پر کھڑ ا رہ جاتاہے۔
ٹیچر نے کلاس میں بچوںکے دو گروپس بنائے ۔گروپ Aکو ایک چارٹ اور مارکرز دے کر کہا کہ آپ سب نے اس پر ایک ڈرائنگ بنانی ہے ۔یہ ایک ہی پیس ہے ۔اس پر اپنی پوری ذہانت لگاکر ایک شاہکار تیار کرناہے۔اس کے بعد گروپ Bکو پانچ عدد چارٹ دیے اور کہا کہ آپ نے پانچ ڈرائنگز بنانی ہیں ۔جب رزلٹ آیا تو گروپ Bجیت گیا تھا۔کیوں کہ ان کے پاس شاہکار بنانے کے لیے پانچ مواقع تھے ۔انھوں نے پہلی ڈرائنگ بنائی ، اس میں جو کمزوریاں تھیں وہ دوسری ڈرائنگ میں انھوں نے نہیں کیں ،اس طرح تیسری ، چوتھی اور پانچویں تک پہنچتے پہنچتے وہ اپنی ساری خامیاں نکال چکے تھے اور آخری ڈرائنگ ان کی واقعی شاہکار بنی۔جبکہ گروپ A نے اگرچہ ایک ہی ڈرائنگ بنانی تھی لیکن ان کے پاس اپنی خامیاں دور کرنے کے مواقع بھی نہیں تھے۔اس وجہ سے اپنی پوری ذہانت لگانے کے باوجود بھی وہ شاہکار نہ بناسکے۔
یہی مثال زندگی کی بھی ہے ۔ہر وہ شخص جو مناسب وقت کے انتظار میں بیٹھ کر انتظار کررہا ہوتاہے اور یہ سوچتاہے کہ ایک وقت آئے گامیں پہلے ہی چانس میں شاہکار بناکر دنیا کے سامنے سرخرو ہوجاؤں گا، یہ اس کی غلط فہمی ہے ۔اس کے برعکس جو یہ سوچ کر نیا قدم اٹھاتے ہیں کہ لوگوں کا جو بھی فیڈبیک آئے گا اس کے مطابق اگلی دفعہ ان کمزوریوں کوٹھیک کرلیں گے ،تو یہ لوگ زیادہ کامیابیاں حاصل کرلیتے ہیں۔
زندگی کے بارے میں ’’علی باباکمپنی ‘‘کے CEO’’جیک ما‘‘کافلسفہ بڑا دلچسپ ہے۔وہ کہتاہے :’’ بیس سال کی عمر میں آپ ایک شاندار طالب علم بنیں اور اپنی پڑھائی پر مکمل دھیان دیں۔تعلیم مکمل ہوجائے تو 25سال کی عمر تک خوب تجربات کریں ، غلطیاں کریں اور ناکامیوں سے سیکھیں۔30سال کی عمر میں آپ کی زندگی میں ایسا کوئی شخص ہونا ضروری ہے جس کو آپ فالو کریں اور اپنی زندگی کو ایک سمت دیں۔اس عمر میں آپ نوکری کریں لیکن کوشش کریں کہ بڑی آرگنائزیشن کے بجائے چھوٹی کمپنی میں ملازمت اختیار کریں۔کیوں کہ بڑی کمپنی میں آپ بڑی بڑی مشینوں کا ایک چھوٹا پرزہ بن کر رہ جائیں گے جبکہ چھوٹی کمپنی میں آپ اپنے لیے خواب دیکھ سکتے ہیں اور اپنے پیشن کو فالو کرسکتے ہیں۔30سے40سال کے درمیان آپ کے لیے ضروری ہے کہ اپنی زندگی میں واضح سمت اور وژن کا تعین کرلیں ۔ اس عمر میں آپ کو اپنی ذات کے لیے کام کرنا چاہیے اور اپنی زندگی کوایک اچھے معیار تک لے کرجاناچاہیے۔40سال کی عمر تک آپ کو بہر حال ایک شعبے میں ایکسپرٹ بن جاناچاہیے ۔یہی چیز اب آ پ کو آگے لے کر جائے گی اور اسی سے آپ کو شہرت ، عزت اور پیسا ملے گا۔پچاس سال کی عمر ایسی ہے جس میں آپ کے پاس نئے تجربات کرنے یا غلطیوں کی گنجائش باقی نہیں رہتی ،اس لیے اب آپ کو نئی نسل کے لیے کام کرنا چاہیے اور اپنے تجربے اور وزڈم کو نوجوانوں میں منتقل کرنا چاہیے کیوں کہ اب آپ کے تجربے کو نئی نسل زیادہ بہتر انداز میں عملی شکل دے سکتی ہے۔60سال کے بعد آپ کو زندگی کے معاملات کو کافی حدتک کم کرکے سمندر کنارے سورج کی تمازت(Sun shower) سے لطف اندوز ہوناچاہیے۔‘‘
زندگی کے مختلف دائرے ہیں۔بچپن ، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے میں قدم رکھتے ہوئے انسان مختلف دائروں سے گزرتاہے۔ہر دائرے کی اپنی مشکلات اور رکاوٹیں ہوتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترقیوں کے مواقع بھی ہوتے ہیں۔قدرت نے ہر انسان کے اندر یہ صلاحیت رکھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی مشکلات کا سامنا کرسکتاہے۔آپ کی زندگی میں بھی مسائل او ر ناکامیاں آسکتی ہیں جو آپ کی ہمت اور حوصلہ کو چیلنج کرسکتی ہیں۔آپ ناکام ہوکرگرتے ہیں کوئی بات نہیں،بس ایک بات کا خیال رہے کہ ناکامی میں آپ نے پیچھے نہیں بلکہ آگے کی طرف گرنا ہے۔

Related Posts