پڑھے لکھے نوجوان بے روزگارکیوں؟
(قاسم علی شاہ)
ایک زمانہ تھا کہ انسان کے جسم پر لباس کی جگہ جانوروں کی کھال ہوتی تھی ۔گھروں کی جگہ وہ غاروں میں رہتاتھا۔بارش ہوتی ، سیلاب آتا یا گرمی سردی سے بچنے کی ضرورت ہوتی تو غار ہی اس کی محفوظ پناہ گاہ ہوتی ۔خوراک کے لیے وہ جانوروں کا شکارکرتا، سبزیاں اور پھل کھاتا ۔اسلحہ کے لیے کوئی نہ کوئی چیز اس کے پاس ہوتی تاکہ کسی اور کا شکار نہ بن جائے۔اس زمانے کاانسان حقیقی معنوں میں دو دائروں کے اندرگھوم رہا تھا۔خوراک اور بقا۔ پھر وقت نے نہ معلوم کتنی پرتیں بدلیں ، کئی زمانے آئے او ر گزرگئے ۔تاریخ کے ہندسے بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے گئے اور پھر وہ دور آگیا جس کو انسانی ترقی کاسب سے عظیم دور کہاجاتاہے۔یہ اکیسویں صدی ہے ۔آج کا انسان غار میں نہیں بلکہ خوبصورت گھراور فرنشڈ کمروں میں رہتا ہے ۔وہ جانوروں کی کھال نہیں بلکہ دیدہ زیب تھری پیس سوٹ پہنتاہے۔یہ آج بھی گوشت اورمچھلی کھاتا ہے لیکن یہ خوراک مختلف طریقوں اور ذائقہ دار مسالوں سے پک کر اس کے دسترخوان پر سجتی ہے۔خطرات سے بچنے کے لیے اس کے پاس جدید اسلحہ ہے۔اس کو پیدل یا اونٹ پر سفرطے کرنانہیں پڑتاکیوں کہ اس کے پاس مہنگی ترین گاڑیاں موجود ہیں جو میلوں کا سفر منٹوں میں طے کرتی ہیں اور ذاتی گاڑی نہ بھی ہو تو UberاورCreemتو کہیں گیا نہیں ، ایک درخواست پر گاڑی اس کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے۔پیغام رسانی کے لیے کبوتر نہیں اُڑاتا اور نہ ہی قاصد کے انتظارکرتا ہے بلکہ ایک میسج اور فون کال کے ذریعے دوسرے براعظم میں بیٹھے انسان سے رابطہ ہوجاتاہے۔
پتھر کے دور سےAI(آرٹیفشل انٹیلی جنس) کے دور تک کایہ شاندار سفر انسان کی سوچ کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ہر زمانے میں جب اس پر مشکلات آئیں، چیلنجز نے اس کا راستہ روکا تو وہ اس کے حل کے لیے سوچتا۔ ایک مفروضہ اس کے دماغ میں آتا، پھر اس کو دوسروں کے ساتھ ڈسکس کرتا، اُس کو عمل میں لاتا ، بعض اوقات اس کو ناکامی ہوتی لیکن کچھ تجربات کے بعد وہ مفید شکل اختیار کرجاتااور یوں اس کی زندگی آسان ہوتی گئی اور وہ ترقی کرتا گیا۔
انسان کو اللہ نے ذہن کی دولت سے نوازاہے جس کے ذریعے وہ سوچتا ہے ، غورو تدبر کرتاہے اور نئی چیزیں دریافت کرتاہے۔ان خیالات سے نظریات اور تھیوریز جنم لیتی ہیں۔ نیوٹن کے سامنے درخت سے سیب گراتو اُس کے ذہن میں فوراً یہ خیال آیاکہ یہ سیب زمین کی طرف کیوں آیا؟ یہ خیال ایک سوال میں بدلااور سوال نے اس کو تحقیق کرنے پر مجبور کیااور پھر اس کا نتیجہ تھیوری کی صورت میں سامنے آیا جس کو آج ’’ کشش ثقل کاقانون‘‘کہاجاتا ہے۔آج کے دور میں تمام ایجادات کسی نہ کسی تھیوریز کے نتیجے میں وجو دمیں آئی ہیں۔انسان کی علمی ، عقلی اور فکری ترقی میں ان تھیوریز کا بڑاکردار ہے۔
انسان اپنی زندگی میں اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک جو علم حاصل کرتا ہے وہ تھیوریز پر مشتمل ہوتاہے۔ان میں اکثریت کی اُن تھیوریز کی ہیں جو ماضی میں کسی انسان کے ذہن میں آئیں ،اُس نے ان کو عملی صورت دی ، وہ کامیاب ہوا اور پھر اس نے انھیں محفوظ کرلیا اور آج کا انسان اُن سے استفادہ کررہا ہے۔نصابی کتابوں کے علاوہ باقی کتابیں بھی تھیوریز پر مشتمل ہیں جو انسان کی فکری ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔وہ ان تھیوریزسے شخصی تعمیر ، لکھنا، بولنا اورمعاشرتی اداب و اقدار سیکھتا ہے۔یہاں تک تو تھیوری کاکردار بڑا واضح ہے اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ انسان کی زندگی میں تھیوری کی اہمیت ہے لیکن صرف تھیوری کے بل بوتے پر آپ زندگی نہیں گزارسکتے جب تک کہ آپ اس کو عملی شکل نہ دیں۔تھیوری اور پریکٹیکل کاآپس میں چولی دامن کاساتھ ہے۔ہم تھیوری کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے لیکن صرف اس پر انحصار بھی نہیں کرسکتے کیوں کہ صنعتی انقلاب کے بعد دنیا میں مقابلے کی فضا پید اہوگئی ہے اور آج اسی ادارے ، کمپنی اور انسان کو ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے جس کے پاس عملی صورت میں شاندار نتائج ہوں۔اس بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج پریکٹیکل نے تھیوری سے زیادہ اہمیت حاصل کرلی ہے۔
ہماراالمیہ یہ ہے کہ آج کا نوجوان پہلی جماعت سے لے کر ایم فل اور پی ایچ ڈی تک پوری محنت کرتا ہے اور ساری تھیوریز کو یاد تو کرلیتاہے لیکن جب وہ عملی میدان میں آتا ہے تو یہ دیکھ کر بھونچکا رہ جاتا ہے کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔کیوں کہ اُس کی ساری محنت تھیوری پر کرائی گئی ہوتی ہے جبکہ انڈسٹری میں تو صرف پریکٹیکل چلتاہے اور وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ ہوتاجاتاہے۔اس صورت حال کے کئی سارے نقصانات ہیں ۔پہلا نقصان تو یہ ہے کہ ڈگری یافتہ نوجوان جب یہ حالات دیکھتا ہے تو اس کی نظر میں اپنی ڈگری اور علم کی حیثیت کم ہوجاتی ہے ۔وہ سمجھتا ہے کہ میں نے یونیورسٹی میں پڑھ کر اپنا وقت ہی ضائع کیا ہے کیوں کہ بظاہر اس کا کوئی نتیجہ اس کو نہیں مل رہاہوتا۔دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب اس کو نوکری نہیں ملتی تو پھر وہ کسی بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اوریوں معاشرہ اچھے خاصے ’’ٹیلنٹ‘‘ سے محروم ہوجاتا ہے۔تیسرا نقصان انڈسٹری کے لیے ہے۔وہ یہ کہ اُس کو انسانی وسائل کی ضرورت تو رہتی ہے ، ایسے میں جب اس کے پاس پریکٹیکل نالج سے محروم ڈگری یافتہ نوجوان آتا ہے تو انڈسٹری کواس پر دوبارہ سے محنت کرنا پڑتی ہے تب جاکر وہ انڈسٹری کے قابل بنتاہے۔حالانکہ ہوناتو یہ چاہیے کہ جب ایک نوجوان نے مخصوص فن کوچارسال پڑھا ہے تو پھر اس کو ایکسپرٹ اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوناچاہیے تاکہ وہ انڈسٹری میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی اپنی قابلیت کو کام میں لائے اور انڈسٹری کی ترقی میں اپنا کردار اداکرے ،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کا نوجوان جو تھیوریز پڑھ رہا ہے ان کو پریکٹیکل میں لایاجاتاہے یا نہیں ،یہ الگ سوال ہے ،اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے’’صنعتی تقاضوں‘‘سے ہم آہنگ نہیں ہیں ۔آج کے طالب علم کوجو تھیوریاں پڑھائی جاتی ہیں ،انڈسٹری اُن سے کافی آگے جاچکی ہے ۔
میراکام ٹریننگ اور ٹیچنگ ہے ۔اپنے اس طویل سفر میں مجھے جب بھی جوانوں سے مخاطب ہونے کا موقع ملا ہے تو ان کا یہی شکوہ تھا کہ’’ سر ! ہم فیس دے کر ،وقت صرف کرکے اور پوری محنت کے ساتھ ڈگری حاصل کرتے ہیں لیکن جب انڈسٹری میں جاتے ہیں تو ہمیں نوکری نہیں ملتی ۔‘‘دیکھا جائے تو ان کا یہ شکوہ بجاہے۔توپھر اس مسئلے کا حل کیاہے؟ اس سلسلے میں ہم نے انڈسٹری میں موجود معروف کمپنیوں کے سی ای اوز،HRہیڈز اور جی ایمز سے بات چیت کی اور ان سے پوچھا کہ آج کا جوان انڈسٹری کے لیے کارآمد کیوں نہیں ہے اور آپ جب کسی امیدوار کو رکھتے ہیں تو اس میں کن کن چیزوں کو دیکھتے ہیں؟اُن کی طرف سے جواب کچھ اس طرح سے تھے کہ ہم اُمیدوار کی کسی ایک قابلیت کو نہیں بلکہ پورے پیکج کودیکھتے ہیں۔سب سے پہلی چیز Soft Skillsہے۔ہم اُمیدوار کے اعتماد ، جذبے ، کمیونیکیشن ،باڈی لینگویج اور ڈگری کے بارے میں اس کی معلومات کودیکھتے ہیں نیز یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے کام کے لیے کتنا پُرجوش ہے ۔اس میں سیکھنے کی عادت کس قدر ہے۔وہ مشکل حالات کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟ بعض کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اُمیدوار کے رویے پر زیادہ فوکس کرتے ہیں ۔ کیوں کہ اگر کوئی انسان تکنیکی اعتبار سے کمزور ہے تو اس کو بہتر کیاجاسکتا ہے لیکن اگر کسی کارویہ کمزورہے توپھر وہ ناقابل قبول ہے۔نیز ہم لیڈرشپ اسکلز کو بھی دیکھتے ہیں۔اپنی ذات کی قیادت کے ساتھ ساتھ ، دوسروں کی قیادت اورپھر لیڈرز کی قیادت والی ذمہ داری اگر اس کو نبھانی پڑی تووہ کرلے گایا نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اگر کسی اور ادارے میں کام کرکے آیا ہے تو وہاں اس کی نمایاں کامیابی کیا تھی؟
انڈسٹری کے معزز ماہرین سے ہمارا دوسرا سوال یہ تھا کہ پریکٹیکل نالج نہ ہونے کی صورت میں ایک اُمیدوار کو تیار کرنے کے لیے آپ کو کتنے عرصے کی محنت درکار ہوتی ہے توان کاجواب تھا کہ’’ یہ ہر انسان کی قابلیت پر منحصر ہوتا ہے۔کسی کو چھ ماہ لگ جاتے ہیں ، کسی کو ایک سال اور کسی کو دوسال۔آج کی نسل چوں کہ زیادہ تیز ہے اور چیزوں کوجلدی سیکھ لیتی ہے تو اس وجہ سے کم عرصہ لگتاہے ۔‘‘لیکن یہ بہرحال ایک مسئلہ ہے اور اداروں کو ایسے جوانوں پرخاصی محنت کرناپڑتی ہے۔
انڈسٹری میں ٹیکنیکل چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ اپڈیٹ ہوتی رہتی ہیں جبکہ یونیورسٹی میں پڑھایا جانے والاعلم وہیں کا وہیں ہے ۔ا س کوانڈسٹریل ڈیمانڈ کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے اوریہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے انڈسٹری اور اکیڈمیہ میں خلا پید اہوگیا ہے۔اس مسئلے نے کئی سارے دیگر مسائل کو بھی جنم دیا ہے جن میں سرفہرست ’’بے روزگاری‘‘ ہے۔اس خلا کو پُر کرنے کے حوالے سے ان ماہرین کاکہناتھا کہ
یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی ہر گزرتے وقت کے ساتھ اپ ڈیٹ ہورہی ہے ۔اسی وجہ سے انڈسٹری بھی ایسی چیزیں متعار ف کرارہی ہے جو ماڈرن دور کے مطابق ہوں۔ چوں کہ انڈسٹری کا بنیادی مقصد ہی ’’منافع‘‘ ہے اس لیے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت، وسائل اور خرچ میں اپنے اہداف حاصل کیے جائیں،یونیورسٹیز کو بھی جدت کا یہ طریقہ اپناناچاہیے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انڈسٹری اور اکیڈمیہ کے ذمہ داران کو آپس میں رابطہ مضبوط کرناچاہیے اور وقتاً فوقتاً میٹنگزکا انعقاد کرتے رہناچاہیے تاکہ باہمی مشاورت سے طلبہ کے لیے ایک ایسا سلیبس تیار کیاجائے جو انڈسٹری کے تقاضوں کے مطابق ہو۔اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کوچاہیے کہ وہ انڈسٹری کے پروفیشنلز کو ہائر کرکے اپنی یونیورسٹی میں لیکچرزدلوائیں ۔اس عمل سے بچوں کو معلوم ہوگا کہ آج کی حقیقی دنیا میں کیا کچھ ہورہا ہے اور انڈسٹری اس وقت کس انداز میں کام کررہی ہے۔ایک تجویز یہ بھی تھی کہ یونیورسٹیز میں ’’کیس اسٹڈیز‘‘پڑھانے کارواج پروان چڑھانا چاہیے۔کچھ ادارے ایسے ہیں جو اپنے طلبہ کو ’’کیس اسٹڈیز‘‘ کی بنیاد پر پڑھارہے ہیں اوراسی وجہ سے ان کے نتائج بھی بڑے شاندار ہیں۔ہر یونیورسٹی اگر اس طریقے کو اپنا لے تو ا س کی بدولت انڈسٹری اور اکیڈمیہ کے درمیان موجود اس وسیع خلا کو پُر کیا جاسکتا ہے۔
’’قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن‘‘نے’’Bridge‘‘ کے نام سے ایک کمپین کا آغازکیا ہے جس کا مقصد اکیڈمیہ اور انڈسٹری میں موجود خلا کو ختم کرنا ہے تاکہ یونیورسٹیز میں پڑھایا جانے والاسلیبس جدید تقاضوں کے مطابق ہواورآج کے نوجوان جب ڈگری لے کر انڈسٹری میں آئیں تووہ عملی طورپر اُن صلاحیتوں سے مزین ہوں جن کی انڈسٹری کو ضرورت ہے۔اس سے جہاں ملک میں بے روزگاری کی شرح کم ہوگی وہیں ڈگری یافتہ نوجوانوں کا مستقبل بھی تابناک ہوگا اور علم وتحقیق کی نئی راہیں کھلیں گی۔