ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقیاں؛ہم کہاں کھڑے ہیں؟
(قاسم علی شاہ)
سرسبزدرختوں، خوب صورت راہداریوں، شاندار کیفے ٹیریاز اور پرشکوہ درسگاہوں پر مشتمل یہ دنیا کی ایک خوب صورت یونیورسٹی”سول نیشنل یونیورسٹی“ہے جو کہ جنوبی کوریا میں واقع ہے۔رینکنگ کے لحاظ سے دنیا بھرمیں یہ 36ویں نمبر پر ہے۔یہ یونیورسٹی جہاں اپنی خوب صورتی کی وجہ سے طلبہ کواپنی جانب متوجہ کرتی ہے وہیں ایک وجہ اور بھی ہے۔اکیڈمیہ بلڈنگز کے پیچھے ایسی گلاس ہاؤس بلڈنگز بھی بنی ہوئی ہیں جو کہ یونیورسٹی کا باقاعدہ حصہ نہیں ہیں۔یونیورسٹی میں آنے والا طالب علم پہلے دن حیران ہوتاہے کہ کچھ فاصلے پر واقع ان بلڈنگز کا کیا مقصد ہے لیکن کچھ ہی عرصے میں وہ ان کی اہمیت سے واقف ہوجاتاہے۔
یہ دراصل ساؤتھ کورین انڈسٹری کی مختلف کمپنیوں کے دفاتر ہیں جن میں ایکسپرٹ بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ ماہرین یونیورسٹی میں آنے والے طلبہ کو سبجیکٹ کے انتخاب کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کے تقاضوں سے متعارف کراتے ہیں۔یہ انھیں بتاتے ہیں کہ آج کل انڈسٹری کوکن قابلیتوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ فلاں موضوع پر ریسرچ کرلیں تو آپ کے لیے بہترین مواقع نکل آئیں گے اور مستقبل میں آپ شاندار کامیابیاں حاصل کرلیں گے۔چنانچہ طلبہ پہلے دن ہی جب یونیورسٹی میں اپنی ریسرچ کا آغاز کرتے ہیں تو انڈسٹری کے ساتھ ان کا لنک بن جاتاہے۔طالب علم یہ جان جاتاہے کہ آج کے دور کے تقاضے کیا ہیں اور ہم کس طرح اپنی قابلیت کی بدولت ان تقاضوں کوپوراکرکے اپنامستقبل روشن بناسکتے ہیں۔یہ طلبہ جب فائنل ائر میں پہنچ جاتے ہیں تو انڈسٹری کے ماہرین انھیں ایک بار پھر یہ آفر دیتے ہیں کہ اگر آپ یہ پراجیکٹ ہمارے ساتھ کرلیں توہم آپ کو بہترین سہولیات کے ساتھ ساتھ فنڈز بھی فراہم کریں گے۔زمانہ طالب علمی میں طلبہ کو ایک بڑا مسئلہ معاش کاہوتاہے، چنانچہ جب ان کی یہ ضرورت پوری کرلی جاتی ہے تو وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہیں اور ایسی چیزیں تخلیق کرلیتے ہیں جن کی بدولت انھیں انڈسٹری میں ہاتھوں ہاتھ لے لیاجاتاہے۔یوں انڈسٹری اور اکیڈمیہ کے مضبوط تعلق سے ایسی قابلیتیں پروان چڑھتی ہیں جو تخلیق اور ایجادکے میدان میں اپنے ملک کا نام روشن کردیتی ہیں۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج جنوبی کوریا ایجادات کے میدان میں دنیا کو لیڈ کررہاہے۔2021ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریاایجادات کے اعتبار سے ایشیا ء کا سب سے زیادہ رینک لینے والا ملک بن چکا ہے اور تاریخ میں یہ پہلی بار ہواہے کہ اس نے جاپان کو پیچھے چھوڑدیا ہے جبکہ ”گلوبل اینوویشن انڈیکس“ میں یہ نویں سے پانچویں پوزیشن پر آچکا ہے۔
اب آتے ہیں اپنے ملک پاکستان کی طرف،جہاں ہم لاکھوں کی تعداد میں ہر سال ڈگری یافتہ فوج تو تیار کررہے ہیں لیکن نہ ہم ایجادات کی دنیا میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل کرسکے ہیں اور نہ ہی روز بروز بڑھتی بے روزگاری کی شرح پر قابو۔جس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں اکیڈمیہ اور انڈسٹری کے درمیان ایک وسیع خلا پایاجاتاہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قومی سطح پر سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کی گئیں۔اس صورت حال نے کئی سارے نقصانات کو جنم دیا ہے۔پہلا نقصان یہ ہے کہ ایک نوجوان جب ڈگری حاصل کرکے عملی میدان میں قدم رکھتاہے تواس کو وہاں کے حالات بدلے ہوئے ملتے ہیں۔کیوں کہ اس کوجوپڑھایاگیا ہوتاہے وہ وہاں ہوتانہیں اور جو ہوتاہے وہ اس کو پڑھایانہیں گیا ہوتا، نتیجتاً وہ مایوسی کا شکار ہوجاتاہے اور اس کی نظر میں اپنی ڈگری کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اس نے یونیورسٹی میں پڑھ کر اپنا وقت ہی ضائع کیا۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ جب اس کو نوکری نہیں ملتی تو پھر وہ کسی بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اوریوں معاشرہ اچھے خاصے ”ٹیلنٹ“ سے محروم ہوجاتا ہے۔تیسرا نقصان انڈسٹری کے لیے ہے۔وہ یہ کہ اُس کو انسانی وسائل کی ضرورت تو رہتی ہے، ایسے میں جب اس کے پاس پریکٹیکل نالج سے محروم ڈگری یافتہ نوجوان آتا ہے تو انڈسٹری کواس پر دوبارہ سے محنت کرنا پڑتی ہے اور ایک لمباعرصا اس پر خرچ ہوتاہے۔
انڈسٹری اور اکیڈمیہ کے درمیان فاصلہ اس وقت ہمارا ایک قومی ایشو بن چکا ہے، جس کاذمہ دار کوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ تینوں طبقات (انڈسٹری، اکیڈمیہ اور طلبہ) ہیں اوران تینوں طبقات کی کمزوریوں کی وجہ سے یہ مسئلہ پید ا ہواہے۔آئیے، ایک نظر ان کمزوریوں پر ڈالتے ہیں۔
اکیڈمیہ کی کمزوریاں
▪️ تعلیمی اداروں میں سب بچوں کوایک ہی ترازو میں تولاجاتاہے۔یہ نہیں دیکھاجاتا کہ اللہ نے ہر بچے کو الگ شخصیت اور الگ قابلیت دی ہے۔اس پہلو پر غور نہ کرنے اور قابلیتوں کے تنوع(Diversity)کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے طلبہ کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور وہ نکھر کر سامنے آنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔
▪️ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو کتاب سے پڑھایاجاتاہے۔ مضمون کے بارے میں ذوق و شوق، سوچنے کی دعوت یاپھر تحقیق وجستجو کی ترغیب نہیں دی جاتی،جس کی وجہ سے بچے بھی کتاب تک ہی محدودرہ جاتے ہیں اور ان کے علم و شعور میں اضافہ نہیں ہوتا۔
▪️ یہاں تخلیقی صلاحیت کو پروا ن نہیں چڑھایا جاتا۔بچوں نے جو سیکھاہے اس سے کچھ تخلیق کرنے کا ماحول موجود نہیں۔جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں کسی بچے کے پاس اگر کوئی احمقانہ آئیڈیا بھی ہو توادارہ اس کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔جس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ بچوں کے اندرجستجو کامادہ برقرار رہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگریہ بچہ ناکام ہوگیاتواپنی غلطی سے سیکھ ضرو ر جائے گا۔
▪️ تعلیمی ادارے اپنے نصاب اور اپنے اساتذہ کو اپ گریڈ نہیں کرتے، جبکہ انڈسٹری وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ ہوتی ہے کیوں کہ اس نے منافع کماناہوتاہے اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ چلنا اس کی مجبوری ہوتی ہے۔نصاب کے اپڈیٹ نہ ہونے کا نقصان یہ ہوتاہے کہ جب طلبہ ڈگری لے کر باہر نکلتے ہیں تو انھیں لگتاہے ہم نے کچھ پڑھاہی نہیں ہے۔
▪️ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی کیرئیر کاؤنسلنگ اور شخصیت شناسی نہیں کی جاتی۔طلبہ کومعلوم ہی نہیں ہوتاکہ میری شخصیت کی قسم(MBTI type) کیاہے اور میرے ٹیلنٹ کے اعتبار سے میرے لیے کون ساکیرئیر بہتر رہے گا۔
طلبہ کی کمزوریاں
▪️ طلبہ کورس کے علاوہ خارجی مطالعہ نہیں کرتے اورنہ ہی کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔کتاب پڑھنا انھیں وقت کا ضیاع لگتاہے۔
▪️ ان میں اعتماد کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے وہ نیا قد م اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔
▪️ وہ تبدیلی کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کمفرٹ زون سے نکلناپسند نہیں کرتے اور نہ ہی بھرپور محنت کاجذبہ رکھتے ہیں۔
▪️ ان کی سوچ محدود ہے۔تعلیم کے بعد وہ صرف نوکری حاصل کرنے تک سوچتے ہیں۔زندگی میں کچھ نیا کرنے کاعزم ان میں نہیں ہوتا۔
▪️ وہ معاشرے کے ٹرینڈز کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔اللہ نے انھیں جن صلاحیتوں سے نواز رکھا ہوتاہے، ان کی طرف دھیان نہیں دیتے۔
انڈسٹری کی کمزوریاں
▪️ انڈسٹری میں براجمان ماہرین کے آپس میں مقابلہ بازی کی فضا قائم ہے۔جس کی وجہ سے وہ نئی نسل کی رہنمائی کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے۔
▪️ طلبہ کو انڈسٹری سے متعارف کروانے،سیکھنے کے مؤثر مواقع پید اکرنے اور انھیں نئے دور کے تقاضو ں سے آگاہ کرنے کے لیے انڈسٹری کی طرف سے کوئی منظم پروگرام موجود نہیں ہے۔
▪️ انڈسٹری کے ماہرین اپنا تجربہ اوراپنا علم اپنی ذات تک ہی محدود رکھتے ہیں۔وہ دوسروں کے ساتھ آزادانہ طورپر شیئر نہیں کرتے۔
آنے والادور آئی ٹی کا ہے
یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ آنے والا دور مکمل طورپر آئی ٹی کا ہے۔صنعتی انقلاب کے بعد انسانی وسائل کی اہمیت بڑھ گئی تھی لیکن اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وجہ سے روبوٹک مشینوں نے انسانوں کی جگہ لے لی ہے اورمستقبل میں اس کی شرح مزید بھی بڑھے گی جس سے لاکھوں انسان بے روزگارہوجائیں گے۔اب ایسے میں وہی شخص کامیاب ہوگا جو آئی ٹی کی مہارت رکھتاہو۔دنیا ٹوجی، تھری جی اور اب فور جی کے بعد فائیو جی کی طرف بڑھ رہی ہے۔میٹاورس کی تشکیل تیزی سے جاری ہے جواگرچہ انسان کو فطرت سے دورلے کر جائے گااور اس کی وجہ سے انسانی رویوں اور تعلقات میں دراڑیں پڑجائیں گی لیکن اس کے باجود بھی آج اس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔اس تخیلاتی دنیا میں جائیداد کی خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کمپنیوں کاقیام اور کاروباری میٹنگزسرانجام دی جائیں گی۔
اب ایسے میں ہر وہ قوم جو خو د کو زمانے کے تقاضوں کے ساتھ اپ ڈیٹ نہیں کرے گی اور آئی ٹی میں مہارت پیدا نہیں کرے گی وہ ان ترقی یافتہ اقوا م میں اپنی جگہ کیسے بناپائے گی؟ اس صورت حال میں ہم اپنے ملک پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ دور میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔
پاکستان اس وقت اپنی جی ڈی پی کا 1فی صد(3.5بلین ڈالرز)آئی ٹی کو دے رہا ہے۔گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں ڈگری رکھنے والے صرف 10فی صدطلبہ کو نوکریوں کا اہل سمجھاجاتاہے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں سے ہر سال 25ہزار طلبہ آئی ٹی کی ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں جن میں صرف پانچ ہزار کو اچھی کمپنیوں میں ملازمت ملتی ہے۔اسی سروے میں لوگوں کی ایک کثیرتعداد نے ”وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی“ کویہ تجویز دی ہے کہ آئی ٹی کے نصاب کو از سرنو تشکیل دیا جائے کیوں کہ یہ Updatedنہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ایجادات میں ہمارا نمبر117واں ہے،جبکہ ہماراپڑوسی ملک 49ویں سے 46ویں نمبر پر آچکاہے اور اس کے آئی ٹی کے ماہرین آج بین الاقوامی کمپنیوں میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے آج سے کئی دہائیاں پہلے اپنے لیے حکمت عملی بنائی تھی جن پر عمل پیراہوکروہ آج ہم سے کئی گنا آگے بڑھ چکے ہیں۔
یہاں پران پاکستانی نوجوانوں کو داد دینی چاہیے جنھوں نے فری لانس مارکیٹ پلیس میں اپنی قابلیتوں کے جوہردکھائے اور پوری دنیا سے کلائنٹس کی ایک بڑی تعداد پاکستان لائے۔انھی کی بدولت آج پاکستان فری لانس خدمات دینے میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے اور اس میدان میں ہم اپنے پڑوسی ملک کوبھی ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔البتہ یہاں بھی ہمیں ایک مسئلے کا سامنا ہے۔Techانڈسٹری میں ایسےCEO’sبھی آرہے ہیں جن کی عمر 32,30سال ہے اور ان کے پاس مینجمنٹ کاتجربہ نہیں ہے۔اسی طرح دوسری اہم قابلیتوں میں بھی وہ کمزور ہیں۔اب ان نوجوانوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایسے تربیتی پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن میں انھیں انتظامی امور کی صلاحیتیں، پیشہ ورانہ اخلاقیات، کمیونیکیشن اسکلز اور شخصیت سازی کی تربیت دی جائے تاکہ وہ بہترین انداز میں اپنی کمپنی چلاسکیں اور پاکستان کی Techانڈسٹری کو فروغ دے سکیں۔
اس وقت ہماراملک کئی سارے بحرانوں کی زد میں ہے جن میں سے ایک بڑابحران ”اکیڈمیہ اور انڈسٹری کے درمیان خلا“ کا ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہاہے۔ ساتھ ہی ساتھ آئی ٹی انڈسٹری کی بے تحاشا ترقی اور اس میدان میں ہماری کمزوریوں نے بھی ہمارے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں۔”قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن“ اس اہم مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور اکیڈمیہ و انڈسٹری کے درمیان خلاکو پُرکرنے کے لیے”Let’s Pay Back“ کے نام سے ایک کمپین چلارہی ہے جس میں مختلف طرح کی سرگرمیاں کرواکر اس خلا کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ارباب اختیار سے بھی ہماری یہی گزار ش ہے کہ سرکاری سطح پر نئی نسل کے لیے ایسے اقدامات اٹھائیں جن کی بدولت نوجوان نسل کوکیرئیر کاؤنسلنگ کے ساتھ ساتھ شخصیت شناسی کی آگاہی ملے۔تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ٹرینڈز کے پیچھے بھگانے کے بجائے ان کی قابلیتوں کو نکھاراجائے۔ ان کی کاوشوں کو سراہاجائے اور اکیڈمیہ اور انڈسٹری کے ماہرین کو ایک جگہ بٹھاکر ان کے درمیان واقع خلا کو ختم کیا جائے۔
اگرہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کیے گئے توپھر ہم بھی جنوبی کوریا کی طرح آئی ٹی کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑسکتے ہیں۔