غیر یقینی حالت
(قاسم علی شاہ)
انسان اپنی پوری زندگی میں یاتو یقینی حالت میں ہوتا ہے اور یا غیر یقینی حالت میں۔یقینی حالت وہ ہوتی ہے جس میں انسان کا دل مطمئن اور روح پرسکون ہوتی ہے۔اس کا اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے۔وہ حالات کی زَد میں نہیں آتا اور نہ ہی وہ لالچ میں پڑتاہے۔وہ سوچتا ہے کہ کل بھی اللہ میرامالک تھا،آج بھی ہے اور آئندہ بھی ہوگا۔جبکہ غیر یقینی حالت میں انسان حالات کا مارا ہوتا ہے۔اس کا اللہ پربھروسہ اور اعتماد ختم ہوجاتاہے۔وہ لالچ کے شکنجے میں مکمل طورپر جکڑا ہوتاہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کو جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ بھرپور ’’ہیرا پھیری‘‘ کرتا ہے ۔وہ اس سوچ میں ہوتاہے کہ معلوم نہیں کل موقع ملے گایا نہیں ؟وہ ’’کل کیا ہوگا؟‘‘ کی فکر میں مبتلا ہوتاہے۔اور جس انسان میں یہ سوچ پیدا ہوجاتی ہے وہ فقط’’آج‘‘ کے بارے میں سوچے گااوریقینی طور پر اس کا کردار ڈگمگائے گا۔غیریقینی حالت ،ا نسان کے کردار کو اڑاکر رکھ دیتی ہے جبکہ یقینی حالت میں انسان ایمان دار ہوتاہے۔اس کی امانت ودیانت کی گواہی ساری دنیا دیتی ہے۔
ٍٍ دنیا میں ممتاز مقام انہی لوگوں کو ملتا ہے جو کردار کے پختہ اور امانت دارہوں۔آج ہمارے معاشرے سے جہاں اور بہت ساری خوبیاں ختم ہوچکی ہیں وہیں امانت داری بھی نہیں رہی۔ ہم لوگ اپنے ہی لوگوں کا نقصان کرکے خوش ہوتے ہیں۔ہمارے ایک دوست باہر کسی ملک میں ایک پورا گروپ وزٹ کے لیے لے کر گئے۔وہاں ہوٹل میں ایک گروپ ممبر کا موبائل گم ہوگیا۔انہوں نے ہوٹل مینجمنٹ کو شکایت کی۔انہوں نے کہافکر کی کوئی بات نہیں اگر یہیں گم ہوا ہے تو ضرور ملے گا۔انہوں نے اپنے سٹاف کو بلایااور موبائل کے بارے میں پوچھا۔سب نے لاعلمی کا اظہارکیا ،پھر منیجر نے پوچھا کہ کسی موبائل کے بارے میں کوئی رپورٹ آئی ہے۔سٹاف نے کہا کہ ایسی کوئی رپورٹ نہیں آئی۔انہوں نے پاکستانی گروپ سے موبائل گم ہوجانے کا ٹائم پوچھ کر اس کے مطابق اپنا ریکارڈدیکھا،اور اس کے بعد کیمروں میں چیک کیا تو جو شرم ناک حقیقت کھلی اس نے سب گروپ ممبرز کے سر شرم سے جھکالیے ۔ریکارڈ میں دیکھا گیا کہ ان کا اپنا ہی ایک گروپ ممبر اس میں ملوث نکلا ۔اس نے موقع پاکر اپنے ساتھی کا موبائل جیب میں ڈال لیا تھا۔جب مسلما ن ہوتے ہوئے ہمارے کردار کا یہ عالم ہو تو پھر ہم آسمان سے کس خیر کی توقع رکھیں؟؟
بحیثیت مسلمان ہم پانچ وقت اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہیں۔پانچ اوقات عبادت میں مصلحت یہ ہے کہ انسان بہت جلدی بھول جاتاہے۔اس لیے بار بار اس کو یاد کرایا جاتا ہے تا کہ وہ بھولے نہ ، کہ وہ صرف مخلوق ہے اور پالنے والا رب اوپر ہے۔مگرپانچ وقت کی یہ عبادت بھی تب ہی نتیجہ خیز ہوگی جب یہ اصل روح کے ساتھ ہوگی اور عبادت کی اصل روح اور مغز’’عمل‘‘ ہے۔عمل کے بغیر عبادت کا کوئی فائدہ نہیں ۔یہ ہمارامعاشرتی مسئلہ ہے ،ہم عمرہ کرکے آتے ہیں اور واپسی سفر میں گاڑی میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں ۔ہم اس قدر اخلاقی طورپر کمزور ہوچکے ہیں کہ ایک دفعہ عمرے سے واپسی پر سعودیہ ائر لائن میں سفر کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ لوگ ائرلائن کے چھوٹے کمبل اپنے اپنے بیگ میں ڈال رہے تھے ۔میں نے ان کو منع کیا تو الٹا مجھ سے جھگڑنے لگے کہ ہم نے ٹکٹ لیاہے ہمارے لیے سب جائز ہیں ۔ان کے جائز ناجائز کا یہ حال ہوتا ہے اور جب ائر پورٹ سے باہر نکلتے ہیں تولوگ دوسو من پھولوں کے ہاران کو پہناتے ہیں کہ حاجی صاحب عمرہ کرکے آئے ہیں۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو معاشرے میں بڑے ٹھاٹ سے حاجی صاحب کہلواتاہے وہ کیا اندر سے بھی حاجی صاحب ہے یا نہیں؟ایسا حج ، عمرہ اور عبادت جوانسان کے رویے اور عمل میں تبدیل نہ لاسکے تو سمجھ لیں کہ وہ اصلی روح سے خالی ہے۔
انسان کواگر معلوم ہے کہ وہ جو کام کررہا ہے وہ غلط ہے ،اس کے باوجود بھی اپنی غلطی پر اڑا ہے تویہ منافقت کی نشانی ہے۔ اللہ انسان پر حد تب لگاتاہے جب وہ علم کے باوجود غلطی کرے۔’’تاریخِ فرشتہ‘‘ جو آج سے 524سال پہلے لکھی گئی ہے ۔محمد قاسم فرشتہ کہتا ہے کہ’’ برِ صغیر میں سب سے زیادہ پائے جانے والا وہ کردار ہے جوصرف نیکی کو دکھاتاہے،حقیقت میں نہیں ہوتا۔‘‘یہ لوگ بیل کو قربانی سے پہلے پورے علاقے میں اس لیے گھماتے ہیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اس دفعہ بیل کی قربانی ہورہی ہے ۔یہ لوگ ہر چیز کا ایک شیلف بناتے ہیں اور اس میں نیکیوں کو سجاتے رہتے ہیں ۔جس کو ہم بناوٹی اخلاق بھی کہہ سکتے ہیں۔جو دل سے نہیں ہوتا بس منہ پر ہی ہوتاہے۔جیسے آپ نے بھی اکثر سنا ہوگا ،میر ابھائی ، میرادوست ، میرا بیٹا ،جبکہ درحقیقت یہ الفاظ اخلاص سے بالکل خالی ہوتے ہیں ۔یہ ایک رسم ، مجبوری اور ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ والا نظریہ بن چکا ہے۔جبکہ اخلاق کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس کودل سے محسوس کریں اور پورے خلوص کے ساتھ بولیں ۔
میرے پاس ایک لڑکی آگئی اور کہنے لگی :’’میرے لیے دعا کریں ۔‘‘ میں نے کہا :’’مجھے د س منٹ دے دیں ۔‘‘ وہ سوچنے لگی شایدمیں مصلیٰ وغیرہ بچھاکر دعا مانگوں گا۔میں نے سرنیچے کرکے کچھ دیر کے بعد کہا :’’کرلی ۔‘‘ وہ کہنے لگی :’’آپ نے دس منٹ تک کیا کیا؟‘‘ میں نے کہاکہ ’’میں نے سوچا اگر آپ میری بیٹی کی جگہ ہوتی تو میں کیا دعا کرتا،جب تک میں نے یہ نہیں سوچا تھا، مجھ سے دعا نہیں ہورہی تھی ۔‘‘جب تک آپ مخاطب کی جگہ پر آکر نہیں سوچتے ،او رمحسوس نہیں کرتے آپ وہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔بغیر احساس کی نہ رہنمائی کی جاسکتی ہے ،نہ ہمدردی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی دعا۔
جب بھی آپ کا اپنے رب پر ایمان ہوگا ،آپ کواطمینان حاصل ہوگا او ر یہ اطمینان آپ کو لاخوف علیھم ولاھم یحزنون کا مصداق بنائے گا۔آپ دنیا میں ہر قسم کی تفکرات اور غم و حزن سے آزا د ہوجائیں گے۔پھر آپ اپنا حق بھی دوسروں کو دیں گے ا س سوچ کے ساتھ کہ وہ رب اور دے دے گا۔جب بھی آپ کو اپنے رب پر یقین ہوگا آپ کبھی اخلاق وکردار کے خلاف کام نہیں کریں گے۔جس انسان کو یہ یقین ہے کہ اللہ ایمان داری سے اتنا دیتا ہے کہ انسان اس کو سمیٹ بھی نہیں سکتا تو پھروہ بے وقوف نہیں ہے کہ بے ایمانی کرے۔ایمان داری سے انسان کو بے شمار نعمتیں ملتی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ انسان باشعور ہو ،وہ جانوروں کی سطح پر نہ ہو ،کیونکہ اس سطح پر گر کر انسا ن میں شعور نہیں رہتا او ر جب شعور نہ ہو تو پھر رب کی مہربانیاں بھی نہیں دیکھی جاسکتیں ۔
’’غیر یقینی‘‘حالت انسان سے ہزار سجدے کرواتی ہے کہ اس کو بھی راضی کرنا ہے ، اُس کو بھی کرنا ہے اور فلاں کو بھی کرنا ہے۔جبکہ اگر عقل سے اوپر وحی کو رکھا جائے تو پھر ’’ایک سجدہ‘‘ آپ کو ہزار سجدوں سے نجات دے دیتاہے۔رب کو راضی کرنا اصل ہے، رب کو راضی کرلیا تو پھر سب کو راضی کرنا آسان ہوجاتاہے ۔لیکن اگر ’’سب‘‘ کو تو راضی کرلیا او ر ’’رب ‘‘ کو راضی نہ کیا تو پھر خسارہ ہی خسارہ ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ مال و دولت کی کثرت ، عہدے کی طاقت ہونے کے باوجودبھی ایک انسان کی شامت آجاتی ہے ۔وجہ یہی ہوتی ہے کہ ’’رب‘‘ راضی نہیں ہوتا۔رب اگر دے تو بھی راضی اور نہ دے تب بھی راضی ،یہی ایمان ہے۔
غیریقینی ذہنیت کا ایک منفی پہلویہ بھی ہے کہ انسان جینے کا مزہ نہیں لے سکتا۔اس کو محسوس ہوتاہے کہ جب موٹرسائیکل تھی تو خوشیاں اور اطمینان تھا ،اب تین چارگاڑیاں ہیں مگر دل میں غیر یقینی حالت ہے۔اس کے پاس دنیا جہاں کی نعمتیں ہونے کے باوجود بھی سکون نہیں ہوتا۔وہ دنیا کے مہنگے ہوٹلوں میں لذیذ ترین کھانے کھا کر بھی روتا رہے گا۔کیونکہ اس نے کبھی اپنے اوپر اللہ کے کیے ہوئے احسانات کو گِنا نہیں ہوتا۔ماضی کے فضل کواس نے دیکھا نہیں ہوتا اسی لیے مستقبل میں بھی ا س کو فضل نظر نہیں آتا۔وہ نہیں جانتا کہ اس کے باپ ، دادا ،پڑدادا پر بھی اسی رب نے فضل کیا تھااور آج وہ اس کابھی رب ہے اور آئندہ قیامت تک آنے والی انسانیت کا بھی رب ہے ۔اپنے رب کو پہچاننا بہت ضروری ہے ۔یہ پہچان تب متصور ہوگی جب اس کی ذات پر یقین ، اس کی رحمت پر بھروسا کیا ہواوراگر کسی نے اپنے رب کو دنیا میں نہیں پہچانا تو وہ قبر میں ’’من ربک‘‘ کاجواب فقط اپنی یادداشت کے بل بوتے پر نہیں دے سکتا۔
زندگی میں شعور ی طور پراپنے رب کو تلاش کرکے اس کی ربوبیت پر یقین رکھنا،ایمان ہے۔آپ اپنی زندگی میں پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ آپ پر اس رب نے کتنے فضل کیے ہیں۔کئی واقعات ایسے ہیں جن کو یاد کرکے انسان حیران ہوجاتاہے کہ یہ انسان میری زندگی میں کیسے آیا؟اس کے دل میں میرے لیے رحم کہاں سے آیا؟یہ انسان میری عزت کیوں کرتاہے؟لوگوں کا میرے بارے میں اچھا گمان کیوں ہے؟ جبکہ میں تو گناہوں سے بھراہوا ہوں ! میرے گناہوں پر پردہ کس نے ڈالا ہے؟جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی نیت کا اگر اس کی اولاد کو بھی پتہ لگ جائے تو وہ اس کا جنازہ تک نہ پڑھیں۔یہ اسی کا تو کرم ہے کہ آپ کے گناہوں پر پردہ ڈال کر آپ کو دوسروں کو نظروں میں عزت دی ہے۔اسی وجہ سے حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ ’’اللہ کے ناموں میں سے ایک بڑا نام ستار العیوب ہے۔‘‘
انسان جب بھی غیر یقینی حالت میں ہوگا تو بدکرداری اور لالچ میں ہوگا۔لالچ میں انسان صرف اسی روز کو دیکھتاہے ۔اس کی نظر آنے والے زمانے پر نہیں جاتی ۔آنے والے زمانے پر نظر ایک ہی وجہ سے جاسکتی ہے کہ جب آپ پیچھے دیکھیں کہ ماضی میں مجھ پراللہ کی طرف سے رحمت ہوئی ہے تو آئندہ بھی ہوگی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ پیچھے تو رحمت ہوئی ہے مگر آگے نہ ہو۔کیونکہ رب تو رحمان و رحیم ہے۔وہ گناہوں کو معاف کرنے والااور رحمتوں کی بارش برسانے والا ہے۔اگر آپ نے اس کو نہیں ڈھونڈا تو یہ آپ کی کمزوری ہے ۔اس کی رحمت او رفضل کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن میں وہ فرماتاہے :’’میری رحمت سے ناامید مت ہونا۔‘‘(سورۃ الزمر:ـ 53)
انسان اگر اس کی رحمت پر یقین اور اس کے فضل کی امید رکھے تو پھر وہ لالچ میں نہیں پھنسے گا اور نہ ہی غیریقینی حالت میں مبتلا ہوگا۔
دنیا میں بیشتر ممالک ایسے ہیں جہاں انسان مکمل طو پر یقینی حالت ، اطمینان اور امن میں ہے۔وہ خوش اور مطمئن ہے اور اس کو یہ یقین بھی ہے کہ میرا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔جبکہ ہمارے ہاں ’’یقینی حالت ‘‘کے کوئی آثار نہیں ہیں۔حالانکہ یہاں تبلیغ پوری دنیا سے بڑھ کر ہے ۔یہاں اڑتالیس لاکھ بچے مدارس میں زیرِ تعلیم ہیں ۔یہاں پانچ نمازیں اور جمعہ وعیدین کے خطبے ہورہے ہیں ۔یہاں عرس ، عید میلاد اور ہر طرح کی مذہبی رسومات پورے زور وشور سے ہورہے ہیں مگر! ان سب کے باوجود ہم ’’غیر یقینی ‘‘ حالت میں ہیں۔ایسا کیوں ہے؟یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جس پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے!!