دوگھڑی ٹھہر جائیں
(قاسم علی شاہ)
ہم لاہور کے ایک کافی شاپ میں موجود تھے۔ میرے سامنے میرا دوست بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے چہرے سے پریشانی اور شدید بے زاری ٹپک رہی تھی۔ اس کی انگلیوں میں یہ تیسرا سیگریٹ تھا جس کا زہریلا دھواں وہ اپنے پھیپھڑوں میں اُتار رہا تھا۔ دو بار اس کا موبائل بجا اور دونوں بار اس کی اپنے مخاطب سے لڑائی ہوئی۔ جب اس کا ہیجان کچھ کم ہوا تو وہ بولا:’’شاہ جی! میں یہ سب کچھ چھوڑ رہا ہوں۔ یہ کاروباریہ گاڑیاں سب بیچ کر یہاں سے کہیں دور جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘مجھے اس کی یہ بات سن کر شدید حیرت ہوئی کیوں کہ اس نے آج اس مقام تک پہنچنے کے لیے بے پناہ محنت کی تھی۔ میں نے نرمی سے پوچھا:’’ لیکن آپ ایسا کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ جواب میں اس نے جو کہانی سنائی وہ بڑی تکلیف دہ تھی۔ اس کے بقول وہ گزشتہ ایک مہینے سے ڈیپریشن کا شکار ہے۔ وہ رات کو اچانک اُٹھ جاتا ہے اور پھر باقی رات کروٹیں بدلتے گزارتا ہے۔ اپنے کاروباری شریک کے ساتھ اس کی کئی بار لڑائی ہوچکی ہے اور پُرتعیش زندگی کے باوجود وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ میں نے غور سے اس کے حالات سنے۔ جب وہ خاموش ہوگیا تو میں نے اپنی کافی سے ایک گھونٹ بھرا، کرسی کی پشت سے ٹیک لگاکر گہرا سانس لیا اور پھر بولا: کیا آپ مجھے تین دِن دے سکتے ہیں؟ اس نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں میری طرف دیکھا تو میں نے کہا: ’’فی الحال آپ گھر جائیں، اپنا بیگ تیار کریں اور صبح 10 بجے تیار رہیں، میں آپ کو لینے آؤں گا۔ ‘‘وہ بدستور میری طرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اپنی کافی ختم کی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کافی شاپ سے نکل آیا۔
شام چار بجے ہم وادی سون پہنچے، ہماری منزل کھبیکی جھیل تھی۔ ہم 25 افراد تھے۔ یہ تفریحی دورہ قاسم علی شاہ فائونڈیشن نے ترتیب دیا تھا۔ میں نے گزشتہ دن اپنے دوست کی ابتر حالت دیکھی تو اسے بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ ہمارے قیام کے لیے جھیل کنارے خوب صورت خیمے موجود تھے۔ کچھ دیر آرام کے بعد ہم باہر آئے۔ جھیل کا منظر بہت ہی دل کش تھا۔ کناروں پر چہل قدمی کے لیے راہ داریاں بنی ہوئی تھیں جو جھیل کی خوب صورتی میں اضافہ کر رہی تھیں۔ ہم نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا، کچھ دیر بعد رات کا اندھیرا پھیل گیا۔ کھانے کے بعد ہم ایک بار پھر جھیل کنارے آئے۔ یہاں کچھ مقامی لوگ ڈھول اور طبلہ لیے بیٹھے تھے اور سریلی آواز میں پنجابی گیت گا رہے تھے۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا، چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور اس کی چاندنی میں جھیل اور آس پاس کے پہاڑ بہت ہی دل فریب نظارہ پیش کر رہے تھے۔ ٹھنڈی رات، پُرسکون جھیل، تازہ ہوا کے جھونکے، چاند کی مدھم روشنی اور دِل میں اتر جانے والی گائیکی نے مل کر لطف و سرور کا ایسا ماحول تشکیل دیا کہ ہماری روح سرشار ہوگئی۔ میرا دوست تو اس منظر میں بالکل ہی کھوگیا تھا۔ وادی سون کے مختلف مقامات کی سیر کرنے کے بعد تیسرے دن شام کو ہم لاہور پہنچے۔ میرا دوست گاڑی سے اُترا تو وہ مسکرا رہا تھا۔ اس کے چہرے سے پہلے والی پریشانی، تفکر اور بے زاری ختم ہوچکی تھی اور اب اس کی جگہ سکون، اطمینان اور تازگی نے لے لی تھی۔
دنیا میں جتنے بھی کھیل کھیلے جاتے ہیں ان میں کھلاڑی کو وقفہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ کچھ دیر کے لیے سستائے، اپنی تھکاوٹ اتارے، توانائی حاصل کرے اور تازہ دم ہو کر میدان میں اُترے۔ زندگی بھی کھیل کی طرح ہے اور اس میدان میں ہم سب کھلاڑیوں کی طرح کھیل رہے ہیں۔ یہاں بھی وقفہ بہت ضروری ہے۔ اگر ہم مسلسل کھیلتے رہیں گے تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے اعصاب شل ہو جائیں گے۔ ہماری توانائی جواب دے جائے گی اور ہم اوندھے منہ گرجائیں گے۔
زندگی کو صرف مادی نظر سے دیکھنے والوں کے بارے میں امریکی شاعر چارلس بوکوسکی کہتا ہے کہ جب صبح کے وقت آپ کو کوئی جگانے والا نہ ہو اور رات کو کوئی آپ کا انتظار کرنے والا نہ ہو اور آپ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں تو ایسی زندگی کو آپ کیا نام دیں گے۔ آزادی یا تنہائی!!
زندگی گزارنے کے حوالے سے دین اسلام کے احکامات میانہ روی پر مبنی ہیں۔ دین ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنے خالق سے یہ دعا مانگو کہ اے ہمارے رب! ہماری دنیا بھی اچھی فرما اور آخرت بھی بہتر بنا دے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا چھوڑ کر جنگل بیابان میں چلا جائے تو وہ صراط مستقیم پر عمل نہیں کر رہا۔ اسی طرح دین کو چھوڑ کر ہر وقت دنیا حاصل کرنے میں مگن رہنا بھی غلط طریقہ ہے۔ مسلمان وہ ہے جو دنیا میں رہے، ضرورت کے مطابق دنیا حاصل کرے، رب کی نعمتوں کو Enjoy کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے احکامات کی ادائیگی کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ وہ شخص کام یاب ہوا جو اسلام لایا اور اسے بہ قدر کفایت روزی مل گئی اور اللہ نے اُسے قانع بنایا۔ (سنن ترمذی:2348)
اس چیز کو ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہوائی جہاز جب پرواز کے لیے تیار ہونے کے بعد رن وے پر دوڑنا شروع کرتا ہے تو اس وقت اس کے چاروں انجن پوری طاقت کے ساتھ حرکت میں ہوتے ہیں۔ جہاز جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے تو اس کی رفتار بھی دُگنی ہوتی جاتی ہے اور اسی طرح دوڑتے دوڑتے وہ اُڑان بھرتا ہے۔ جہاز کو زمین کے مدار سے نکلنے کے لیے بہت زیادہ طاقت لگانی پڑتی ہے۔ جیسے ہی فضا میں وہ اپنی مقررہ حد تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے بعد اسے چار انجنوں کی طاقت کی ضرورت نہیں رہتی۔ 25 ہزار فٹ کی بلندی پر اس کا سارا زور صرف اپنی پرواز کو برقرار رکھنے پر ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر پائلٹ سارے انجن چلانے کی غلطی کرلے تو جہاز کے گرنے کا قوی امکان ہوتا ہے۔
ہماری زندگی بھی جہاز کی مانند ہے۔ ابتدائی سالوں میں ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد جیسے ہی عملی زندگی کے ہنگامے شروع ہوتے ہیں توہماری محنت بھی دُگنی ہو جاتی ہے۔ اس مرحلے میں ہر انسان پورا زور لگاتا ہے۔ ہر طرح کے مشکل حالات کو برداشت کرتا ہے اور کبھی کبھار مالی تنگی کا بھی سامنا کرتا ہے لیکن یہ سب چیزیں ایک وقت تک ہوتی ہیں۔ جب ہمیں نوکری مل جاتی ہے اور روزگارکا بندوبست ہو جاتا ہے تو پھرہمیں 24گھنٹے محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص یہ غلطی کرتا ہے اور زندگی کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو پھر اس کی زندگی کا جہاز بھی کریش ہوسکتا ہے۔
زندگی کی سڑک پر دوڑتے دوڑتے دو گھڑی ٹھہرنا، اپناپسینہ پونچھنااورتھکے ہارے جسم کوآرام دینابہت ضروری ہے۔ایک دانش ور کہتاہے کہ پُرسکون دماغ ہی تخلیقی دماغ ہوتاہے۔وقفہ لینے سے آپ تازہ دم ہوکراُٹھتے ہیں اور نئے جوش وخروش کے ساتھ اپنی منزل کی جانب گام زن ہوتے ہیں۔یہ وقفہ روزانہ کی بنیاد پربھی ضروری ہے ، ہفتہ واراورماہ واربنیادوں پربھی۔آپ روزانہ دفتر جاتے ہیں یا پھر کوئی اور کام کرتے ہیں۔کام کے دوران خو دکو مشین مت بنائیں ، اپنے لیے وقفہ لینے کاوقت مقرر کریں اور اس کے مطابق اپنے جسم کوآرام دیں۔
جرنل آف بزنس اینڈ سائیکالوجی میں اس موضوع پر ایک تحقیق شائع ہوئی ۔یہ تحقیق 272ملازمین پر کی گئی جس میں کام کے دباؤ کے دوران اُن کے رویوں کو جانچاگیا۔اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن ملازمین کو کام کے دباؤ کامسلسل سامنارہاوہ تھکاوٹ ، منفی اثرات اور خدشات کا شکار ہوگئے تھے اوروہ اپنے کام سے دورجاناچاہتے تھے۔
وہ لوگ جوایک طویل عرصہ سے صرف کام ہی کرتے رہتے ہیں اور کوئی وقفہ نہیں لیتے تووہ غیر محسوس طریقے سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے جاتے ہیں۔ ان کے مزاج میں چڑچڑاپن شروع ہوجاتاہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ڈیپریشن کاشکار ہوتے جاتے ہیں۔یہ چیز ان کے اعصاب کو کمزور کرتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اندر برداشت اور تحمل کی کمی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔وہ معمولی باتوں پرگھبراہٹ اورمایوسی کا شکارہوجاتے ہیں۔ان کے سامنے کوئی بھی ناگوار چیز آتی ہے تو وہ اس پر شدید ردِعمل دیتے ہیں جس کی وجہ سے لڑائی جھگڑاشروع ہوتاہے جو اُن کے سکون و اطمینان کو ختم کردیتاہے۔
یادرکھیں کہ انسانی جسم مسلسل کام کرنے کے لیے بنا ہی نہیں۔ اسے وقفہ دینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ مسلسل کام کودرست عمل سمجھتے ہیں دراصل وہ فطری اصولوں کے خلاف ورزی کرتے ہیں۔ فطرت میں وقفے کی منظم ترتیب ہے۔ آپ سورج کو دیکھیں، ہر صبح طلوع ہوت اہے لیکن شام کو غروب بھی ہوتا ہے۔ دن کے بعد رات، گرمی کے بعد سردی اور بہار کے بعد خزاں کا وقفہ ہوتا ہے۔ گندم کی فصل اپریل، مئی میں پک جاتی ہے تو پھر اگلے سال تک وقفہ ہوتا ہے۔ اسی طرح پھلوں اور سبزیوں کے پکنے میں بھی باقاعدہ وقفہ ہوتا ہے۔ جو بھی انسان فطرت کے اس اصول پرجس قدر کاربند ہوگا، اسی قدر وہ خوش اور کام یاب بھی ہوگا۔
آج کی کاروباری دنیا میں اس نظریہ کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے کہ بس کام ، کام اور کام ہی کرتے رہنا ہے۔ وہ اپنے ملازمین کو باقاعدہ طورپر وقفہ دیتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سرچ انجن کمپنی Google اپنے دفاتر میں قیلولہ خول (Nap Pods) فراہم کرتی ہے جس کی بدولت ملازمین کو کام کے دوران قیلولہ کرنے میں سہولت رہتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سفری سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی Uber نے اپنے ہیڈکوارٹر میں کثیر تعداد میں قیلولہ گاہیں (Nap Rooms) بنوائی ہیں جہاں ملازمین مختصر نیند لیتے ہیں۔ یہی ترتیب Nike کمپنی میں بھی ہے۔اسی طرح جاپانی کمپنیوں میں قیلولہ کے لیے باقاعدگی سے وقت دیا جاتاہے۔ سپین میں ایک طویل عرصے سے ’’سیسٹا‘‘ کا تصور رائج ہے۔ وہاں دوپہر میں کاروبار کچھ گھنٹوں کے لیے بند ہو جاتا ہے اور دن ڈھل جانے کے بعد لوگ واپس اپنی دکانوں پر آتے ہیں۔ چین میں بھی ملازمین کام کے دوران ہی مختصر نیند لیتے ہیں اور اسے ’’دوپہر کی جھپکی‘‘ کہا جاتاہے۔ اٹلی میں اسے ’’ریپوسو‘‘ کا نام دیا ہے۔ اسی طرح میکسیکو، برازیل اور ارجنٹائن سمیت لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں کام کے دوران نیند لینے کا باقاعدہ رواج ہے۔ کیوں کہ وہ اس چیز کے فوائد جانتے ہیں۔
سروے سے معلوم ہوا ہے کہ زندگی میں وقفہ لینے سے انسان کا ذہنی دباؤ کافی حدتک کم ہو جاتا ہے۔ وہ تازہ دم ہوکر کام کی طرف آتا ہے تو اس کی تخلیقی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، اس کا ذہن تیز ہوتا ہے اور وہ بہترین انداز میں اپنے کاموں کو پورا کرتا ہے۔ وقفہ لینے سے انسان ذہنی سکون حاصل کرلیتا ہے اور مسلسل کام کی وجہ سے اس کے اندر جو بے چینی اور بے زاری پیدا ہوچکی ہوتی ہے، وہ ختم ہوجاتی ہے۔ وقفہ لینے سے انسان کی قوت ارتکاز بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ اپنے کام پر پوری توجہ دیتا ہے جس سے کام کا معیار بہترین ہو جاتا ہے۔
یہ زندگی بہت ہی قیمتی ہے۔ اسے صرف پیسے کمانے یا اونچا مقام حاصل کرنے کی خاطر قربان مت کیجیے۔ اپنے اردگرد دیکھیے، کتنی زیادہ نعمتیں بکھری پڑی ہیں۔ ان سے لطف اندوز ہوں اور زندگی کو حقیقی معنوں میں جینا شروع کریں۔
زندگی کی خوب صورتی کے متعلق رابن شرما اپنی کتاب The Monk Who Sold His Ferrari میں کہتا ہے:
’’زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز کرکے اور بڑی خوشیوں کاپیچھا کرکے خودکو مت تڑپاؤ۔ آج ہی وہ دن ہے جسے تمھیں بھرپور انداز میں جینا چاہیے، وہ دن نہیں جس دن تمھاری لاٹری لگ جائے یا جب تمھارے پاس بہت سا مال آجائے۔ مادی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے اپنی روح کو مت بیچو۔ تمھارے بینک اکاؤنٹ میں موجود پیسوں اور گھر کے رقبے کا خوشیوں اور اطمینان بھری زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یاد رکھو! یہ دنیا بہت سے بے اطمینان کروڑ پتیوں سے بھری پڑی ہے۔ آج کو جیو۔چاند کی پرنور چاندنی، سورج کی گرماہٹ، ستاروں سے بھری آسمان کی گود، گلاب کی پنکھڑیاں اور تمھارے بچے کی شرارتی ہنسی، یہ سب تمھاری روح کو گرمانے کے منتظر ہیں۔زندگی جینا ملتو ی مت کرو۔‘‘