معاف کرو تاکہ معاف کردیے جاؤ

معاف کرو تاکہ معاف کردیے جاؤ
(قاسم علی شاہ)
آج پورے شہر پر سناٹا طاری تھا۔ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہواتھا۔قریش کے تمام بڑے سرداروں کے چہروں پر تفکر کے نشان تھے ۔کیوں کہ خبر آئی تھی کہ مسلمانوں کا ایک عظیم لشکر مکہ کی طر ف آرہاہے۔آج قریش کی شان و شوکت ، افرادی قوت اور گھمنڈ و نخوت پر پانی پھرچکا تھا۔ہر شخص کو اپنے اپنے مظالم یاد آرہے تھے اور دل ہی دل میں وہ خود کو انتقام کے بھینٹ چڑھتادیکھ رہا تھا۔کیوں کہ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے کائنات کی سب سے عظیم ہستی حضرت محمد ﷺ پر ہر طرح کا ظلم کیاتھا ۔ان کے قتل کی منصوبہ بندیاں کی تھیں۔ان کا سوشل بائیکاٹ کرکے شعب ابی طالب میں خاندان سمیت پناہ لینے پرمجبورکیاگیاتھا ،جہاں کھانے پینے کاسامان نہ ہونے کی وجہ سے انھیں شدید فاقوں کاسامنا کرنا پڑا۔اورجب قریش کاحسد ،کینہ اور دشمنی حد سے تجاوز کرگئی تو آپ ﷺ کو اپنا محبوب شہر، اپنا گھر بار اور اپنا سب کچھ چھوڑنا پڑالیکن آج جب وہ ایک فاتح کی صورت میں مکہ کی طرف آرہے تھے توان کے دل میں انتقام کے جذبات نہیں تھے بلکہ لبوں پر رب کی ثنا ء اور سرمبارک عاجزی کی وجہ سے اونٹ کے کوہان سے لگ رہاتھا۔آپ نے کسی کی جائیداد غصب نہیں کی، کسی کو نشان عبرت نہیں بنایا،کھوپڑیوں کے مینار نہیں بنائے بلکہ قریش مکہ کی توقعات کے بالکل برعکس فیصلہ کیا اور فرمایا:’’جاؤآج تم سب معاف ہو‘‘یہاں تک کہ ابوسفیان جیسا سخت دشمن ،جواسلام دشمنی میں پیش پیش تھا اس کو بھی معاف کردیا بلکہ اس کے گھر کو دارالامان قرار دے دیا۔اعلیٰ ظرفی اور معافی کی یہ وہ عظیم مثال تھی تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔آپ ﷺ کے اسی عظیم اخلاق کی بدولت بے شمار مشرکین نے اسلام قبول کیا اور آپ ﷺ کے جاں نثار بن گئے۔

معافی وہ عظیم اخلاقی صفت ہے جس کی بدولت انسان اپنے دشمن کو بے بس کردیتاہے۔یہ احسان کا وہ دائرہ ہے جس میں آکر بڑے سے بڑے ظالم کا دل بھی پگھل جاتاہے اور وہ اپنے کیے پر شرمسار ہوجاتاہے۔ہر معاف کرنے والاانسان دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر بھی احسا ن کررہا ہوتاہے کہ اس عمل سے اس کے دل و دماغ کاوہ تمام بوجھ اترجاتاہے جو اس کو باربار انتقام لینے پر مجبور کرتاہے۔

کچھ سال پہلے کی بات ہے ۔ ایک خاتون تھی جس کے ساتھ خاندان کے کچھ افراد نے ناانصافی کی تھی ۔خاتون نے ان تمام مظالم کو اس حد تک اپنے ذہن پر سوار کرلیاتھا کہ سوچ سوچ کر وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی اور بستر تک جاپہنچی۔ان کو کسی خیرخواہ نے واصف علی واصف کے پاس جانے کا مشورہ دیا ۔ وہ واصف صاحب کے پاس گئی اور ان سے اپنے مسئلے کا حل پوچھا۔واصف صاحب نے فرمایا:’’معاف کردو ۔ان تمام لوگوںکو معافی دے دو جن کے چہرے سونے سے پہلے آپ کے ذہن میں آتے ہیں اور آپ کو اذیت دیتے ہیں۔‘‘ محترمہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے مشورے پر عمل کیا اور سب کو معاف کرکے ان تمام زیادتیوں کو دل سے نکال پھینکا تو چند ہی دن میں وہ بالکل تندرست ہوگئی اور ایک نارمل زندگی کی طرف آگئی۔

اس دنیا میں سب سے قیمتی نعمت اللہ کی رضا اور اس کی محبت ہے ۔یہ جس انسان کومل جائے تواس کا دنیا میں آنے کا مقصد پورا ہوجاتاہے۔معاف کرنا ایک ایسی صفت ہے جس سے انسان اللہ کی محبت پاسکتاہے۔اس بارے میں اللہ خودارشادفرماتاہے:’’اور جوغصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے‘‘۔(سورۃ آل عمران:134)اور جب دونوں جہانوں کا مالک کسی سے محبت کرتا ہے،تو فرشتے بھی اس سے محبت کرتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت اور قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔آپﷺ نے فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے! میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوںتو بھی اس سے محبت کر، پھر جبرئیل ؑ اس سے محبت کرتے ہیں اور آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو ، پھر آسمان والے فرشتے اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس کے بعد زمین والوں کے دلوں میں وہ مقبول ہو جاتا ہے‘‘۔(صحیح مسلم:6705)

معافی دینے پرانسان کوبھی معاف کردیا جاتاہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’بلکہ معاف کردینا اور درگزر کرلینا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے قصور معاف فرما دے؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والامہربان ہے‘‘۔(سورۃ النور:22)
معاف کرنے سے انسان کو رحمت ملتی ہے۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا‘‘۔(سنن الترمذی:1924)
معاف کرنے سے انسان کی عزت گھٹتی نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوتاہے۔بعض لوگ معاف کرنے کو اپنی توہین اور کمزوری سمجھتے ہیںجب کہ معاف کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ انسان مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔وہ دنیا و آخرت میں عزت کا حق دار ٹھہرتاہے۔آپ ﷺ فرماتے ہیں:
’’اور جو بندہ معاف کر دیتا ہے اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے‘‘۔(صحیح مسلم :6592)
معاف کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ انسان کا بڑے سے بڑا اختلاف بھی ختم ہوجاتاہے،کیوں کہ اللہ رب العزت ارشادفرماتاہے:
’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، (برائی کو) اس بات سے دفع کیجیے جو اچھی ہو پھر اچانک وہ شخص جو تیرے اور اس کے درمیان دشمنی تھی ایسا ہوگا گویا کہ وہ مخلص دوست ہے۔‘‘(سورۃ فصلت:34)

معاف کرنے والا انسان نفسیاتی اور ذہنی طورپر صحت مند رہتاہے۔وہ جسمانی طورپر بھی اچھا ہوتاہے ۔اس کے جسم کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتاہے۔ہرمعاف کرنے والا ایک خوش حال انسان ہوتاہے جبکہ اس کے برعکس معاف نہ کرنے والے انسان کے چہرے سے کرختگی صاف جھلکتی ہے۔فرض کیجیے کہ آ پ نے ایک کلوگرام کی کوئی چیز ہاتھ میں پکڑی ہے۔آپ تین چار منٹ بآسانی اس کو پکڑ ے رکھ سکتے ہیں لیکن اگر اس کو دس گھنٹوں تک پکڑے رکھیں تو اس کے بعد آپ کا ہاتھ سُن ہوچکا ہوگااوراگر اس کو دو دن تک پکڑے رکھیںتو اس کے بعد آپ کے ہاتھ کی حالت یہ ہوگی کہ آپ کوکسی ماہر فزیوتھراپسٹ کے پاس جانا پڑے گااور اگر دس دن تک اس چیز کو پکڑے رکھیں تو عین ممکن ہے کہ اس کے بعد ہاتھ کا آپریشن کرنا پڑجائے۔ہماری زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتاہے ۔ہم نے اپنے ساتھ ہونے والی چھوٹی بڑی زیادتیوں کے بوجھ کو اٹھایاہوتاہے اور کئی سال اس حالت میں گزاردیتے ہیں۔آپ خود سوچیں کہ یہ چیز ہماری ذہنی صحت پر کس قدرشدید انداز میں اثرانداز ہوتی ہوگی۔لیکن اگر معافی والارویہ اختیار کیاجائے تو وہ انسان بہت ساری نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں سے بچ جاتاہے۔

انسان فطرت پر پیدا ہواہے ۔فطرت کے مطابق چلنااس کے لیے ضروری ہے ۔جب بھی وہ حسد، کینہ اور انتقام کے جذبات رکھتاہے تو ایسے میں وہ فطرت سے دُور ہوجاتاہے۔دوسری اہم چیز یہ ہے کہ معاف کرنے کا حکم وحی سے ملتاہے۔وحی انسان کی عقل سے بالاترچیز ہے۔جب انسان فطرت کو اور عقل سے بالاترچیز وحی کوچھوڑدیتاہے تو پھر اس کی شخصیت میں کئی ساری شکنیں پیدا ہوجاتی ہیں اور یہ شکنیں دراصل ا س کی سوچ کی ہوتی ہیں۔سوچ کی یہ خامی انسان کے جسم پر ظاہر ہوتی ہے اورپھر وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا نظرآتاہے۔اسی وجہ سے بڑے بڑے صوفیاء فرماتے ہیں کہ دُعا مانگنے سے پہلے سب کو معاف کرنا چاہیے۔کیوں کہ انسان اور اس کے رب میں حائل ہونے والی چیزاس کی انا ہے ۔جب انا کی دیوار نہیں ہوگی تو پھر رب اپنے بندے کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف بھی بخش دے گا۔

دوسروں کو معاف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسا ن کا دل حسد اور کینہ سے بھراہواہے۔یہ آگ کے انگارے ہیں ۔فرض کریں ایک شخص کے ہاتھ میں کوئلے کے ٹکڑے ہیں جو وہ دوسرے انسان کو مارنا چاہتاہے تو دوسرے انسان کووہ کوئلے بعد میں لگیں گے سب سے پہلے اس کا اپنا ہاتھ جلے گا۔

معافی نہ دینے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ انسان کی زندگی میں Full Stopلگ جاتاہے۔وہ زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتا۔وہ اپنا پورا زور لگارہا ہوتاہے لیکن اس کے باوجود بھی اس کو تنائج نہیں مل رہے ہوتے۔سالوں گزرجاتے ہیں لیکن اس کے باوجو د بھی وہ نہ ذہنی طورپر آگے بڑھ پاتاہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ طورپر۔

معاف کرنے سے انسان عام نہیں رہتا،خاص بن جاتاہے۔معاف کرنے کی تین کیفیات ہیں۔پہلی کیفیت یہ ہے کہ ایک انسان کے ساتھ ظلم ہو ااور وہ بدلہ لینا چاہتا ہے لیکن لے نہیں سکتا۔یہ بے بسی ہے۔دوسری کیفیت یہ ہے کہ وہ بدلہ لے سکتاہے اور اس نے بدلہ لے بھی لیا ۔تیسری کیفیت یہ ہے کہ اس کے ساتھ ظلم ہوا ، وہ اختیار رکھتاہے لیکن اختیار کے باوجو دبھی وہ ظلم کرنے والے کومعاف کردیتاہے۔اب وہ ایک اونچے مقام پر فائز ہوگیا۔ا س کے بعد ایک کیفیت اوربھی ہے ۔جس میں وہ نہ صرف معاف کرتا ہے بلکہ اُس پر احسان بھی کردیتاہے اور اس کے لیے دعاکردیتاہے۔یہ انبیاء ، اولیاء اور درویشوں کامقام ہے۔

رمضان المبارک کاعشرہ مغفرت اور بخشش چل رہاہے۔اس عشرے میں اللہ کی طرف سے مخلوق کی مغفرت کی جاتی ہے اور ان کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں ۔اسی نسبت سے ہمیں بھی معافی کی روایت کو بڑھانا چاہیے ۔کیوں کہ آج حسد والے لوگ بہت ہیں ، انتقام کے جذبات رکھنے والے بے شمار ہیں لیکن برداشت کرنے اور معاف کرنے والوں کی شدید کمی ہے ۔اسی وجہ سے معاشرے میں نفرت ، تعصب اور بے برکتی پھیلی ہوئی ہے۔

آئیے اس عشرہ مغفرت کی مناسبت سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ ساتھ انسان کے ساتھ ہر طرح کے معاملات میں درگزر اور عفو سے کام لیں گے بلکہ ان کے ساتھ احسان کامعاملہ کریں گے۔اس عادت کو نہ صرف رمضان میں بلکہ رمضان کے بعد بھی قائم رکھیں گے۔یہی وہ راز ہے جس کی بدولت حسد، کینہ اور انتقام کی اس فضا کو ختم کیاجاسکتاہے ۔پیار و محبت اور خلوص کو بڑھایاجاسکتاہے اور رب کی مغفرت و رحمت کو اپنی طرف متوجہ کیاجاسکتاہے۔
بے شک جس نے معاف کیا ، وہ معاف کردیا گیا۔

Related Posts