معاشرے کے مثبت پہلو کیسے اُجاگر کریں؟

معاشرے کے مثبت پہلو کیسے اُجاگر کریں؟
(قاسم علی شاہ)
31دسمبر کا سورج غروب ہوا تو پورا دبئی لائٹوں اور برقی قمقموں سے جگمگااٹھا۔ہر طرف جوش و خروش تھا اور ہر شخص نئے سال کو خوش آمدید کہناچاہ رہا تھا۔بارہ بجتے ہی آسمان روشنیوں سے بھرگیا۔لوگوں کے شوراور بے ہنگم موسیقی کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔اچانک ایک بیس منزلہ بلڈنگ کی دسویں منزل پر آگ بھڑک اٹھی لیکن لوگ نئے سال کی سیلیبریشن میں اس قدر مصروف تھے کہ کسی کوخبر ہی نہ ہوئی لیکن اسی بلڈنگ کے نیچے روڈ پر ایک پاکستانی کھڑ ا تھا۔اس نے جب آگ بھڑکتی دیکھی اور لوگوں کواپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے چھلانگ لگاتے دیکھا تو اس نے اپنا موبائل نکالا اوراس ہیبت ناک منظر کی ویڈیو بنانے لگا۔اگلے چند گھنٹوں میں پاکستانی میڈیا پر یہ بریکنگ نیوز بن کر نشرہونے لگی۔اس ساری کہانی میں حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس بلڈنگ کے پاس رہنے والے لوگوں کو بھی پاکستانی میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ہمارے پڑوس میں آگ لگی ہوئی ہے۔

سعودی عرب کے لوگ تیز ڈرائیونگ کے شوقین ہیں۔2016ء کی ایک رپورٹ کے مطابق،سعودی عرب دنیا بھر میں سب سے زیادہ حادثاتی اموات والا ملک بن چکاتھا۔وہاں چوبیس گھنٹوں میں لاتعدادروڈ ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ وہاں کا میڈیا اس کو ملکی معیشت ، معاشرتی المیوں یااداروں کی ناہلی کے ساتھ جوڑے یا پھرمرچ مسالا لگا کر ایسی ہوش رُباہیڈلائنز کے ساتھ پیش کرے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں اوروہ خود کو شدید عدم تحفظ کا شکار سمجھیں ۔البتہ پاکستانی میڈیامیں یہ بات نہیں ، یہاں آپ کوہیروئن کی جوتی گم ہونے سے لے کربارش کے کھڑے پانی تک ،چھوٹی سے چھوٹی خبر بھی اس انداز میں ملے گی جو آپ کوہلاکر رکھ دے گی۔آج سے بیس سال پہلے صرف پی ٹی وی ہوتا تھا جس پر رات 9بجے کا خبرنامہ سن کر حالات کے بارے میں معلومات مل جاتی تھیں لیکن آج 90سے زائد چینلز ہر پندرہ منٹ بعدایسی ہیڈ لائنز چلاتے ہیں جس میں منفی خبروں کاپلڑا بھاری ہوتاہے اور اگر آپ دو گھنٹوں تک بریکنگ نیوز سنتے رہیں تو اٹھنے سے پہلے مایوسی کا شکار ہوچکے ہوں گے۔یہی حال سیاسی ٹاک شوز کا بھی ہے جہاں ملکی مسائل حل کرنے کے بجائے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کی کھچائی کا موقع دیاجاتاہے اور ریٹنگ کاخوب فائدہ اٹھایا جاتاہے۔

پرنٹ میڈیا ہو ، الیکٹرانک میڈیایا پھرسوشل میڈیا ۔ دیکھ کر یوں لگتاہے کہ اس معاشرے میں کوئی اچھا کام ہوہی نہیں رہا۔ہر طرف نفرت ، دھوکا، منفیت اورخودغرضی عرو ج پر ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔مانا کہ یہاں ظلم و زیادتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے اچھے کام بھی ہورہے ہیں۔معاشرہ بالکل ہی بے حس نہیں ہوابلکہ کچھ درد دل رکھنے والے بھی ہیں جوخدمت ، خلوص اور محبت کا مشعل تھام کر اِن اندھیروں کو اُجالوں میں بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔

معاشرے کے اسی مثبت پہلو کو اُجاگر کرنے او ر ملکی تشخص کا بہترین روپ سامنے لانے کے لیے قاسم علی شاہ فائونڈیشن نے ایک مکالماتی نشست کا اہتمام کیا جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والی معرو ف شخصیات نے شر کت کی اور اس موضوع پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ۔اس نشست میںپاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کے لیے جو تجاویز پیش کی گئیں ، وہ آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں:

(1)ہم نصابی سرگرمیاں
بچوں کے اسکولوں میں صبح اسمبلی ہوا کرتی تھی جس میں علامہ اقبال ؒ کی مشہور دُعا ’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کر‘‘ بچوں کوپڑھائی جاتی تھی ۔اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ بچے ان الفاظ پر غورکرتے اوراس کامعنی اپنے اساتذہ سے پوچھتے تھے اور یہی چیز ان کے تحت شعور میں بیٹھ جاتی جو کہ حب الوطنی کی وجہ بنتی۔اس کے ساتھ ساتھ تقریری مقابلے اور بیت بازی کی صورت میں ہم نصابی سرگرمیاں بھی ہوتی رہتیں جن کی بدولت بچوں میں اپنے ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کاجذبہ پروان چڑھتا۔لیکن اب یہ طریقہ اکثر اسکولوں میں ختم ہوچکا ہے جس کی وجہ سے نئی نسل میں وہ جذبہ بھی نہیں رہا۔رہی سہی کسر میڈیانے پوری کردی اور یہی وجہ ہے کہ آج نئی نسل کے ذہن میں پاکستان کا منفی امیج بن چکا ہے اور وہ مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی تمام سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کیاجائے۔

(2)سیر و سیاحت ،ثقافت اورصنعت کی پروموشن
بھارتی وزیر اعظم کچھ عرصہ پہلے امریکہ کے دورے پر تھے ۔وہاں انھوں نے ہندوستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے ڈالر مانگنے نہیں آیا بلکہ یہ گزارش کرنے آیا ہوں کہ آپ میں سے ہر شخص کی جتنی استطاعت ہو، وہ غیر ملکیوں کواس بات پر قائل کرے کہ وہ ہندوستان کا وزٹ کرے اور ہماری ثقافت کودیکھے ۔ اس کابڑافائدہ یہ ہوگا کہ ہماری ملکی معیشت مضبوط ہوگی اور دنیا بھر میں بھارت کااچھاامیج سامنے آئے گا۔

ہمارے ملک پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔یہاں سال کے چار موسم پورے آب و تاب کے ساتھ آتے ہیں۔ مختلف طرح کے پھل اور سبزیاں یہاں پیدا ہوتی ہیں۔ایسے بے شمار علاقے ہیں جوپہاڑوں، جنگلات اور سبزے سے بھرپور ہیں ۔ہمیں بھی باہر کی دنیا میں ان تمام چیزوں کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کے لیے’’ ٹوورازم ڈیپارٹمنٹ‘‘ ایسے اقدامات اٹھائے کہ انٹرنیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پرپاکستان کے یہ خوب صورت علاقے زیادہ سے زیادہ پروموٹ ہوں۔ہمارے یوٹیوبرز اور وی لاگرز بھی اس سلسلے میں اپنابھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔جبکہ باہر کے ممالک میں سیر کے لیے جانے والے پاکستانی وہاں کے لوگوں کویہ دعوت دیں کہ پاکستان دنیا کاایک حیرت انگیز ملک ہے اوراگر آپ نے وہاں کا وزٹ نہیں کیاتوآپ ایک بہترین جگہ دیکھنے سے محروم رہے ہیں۔

اسی طرح پاکستانی ثقافت کو بھی پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ باہر کی دنیا ہماری ثقافت میں دلچسپی لے اور وہ یہاں کا وزٹ کرے۔اس سلسلے میں بیرون ممالک میں موجود پاکستانی سفارت خانے قومی تہواروں پرتقریبات کا اہتمام کریں اور وہاں کے باشندوں کو مدعو کریں تاکہ وہ ہماری ثقافت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں۔پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک مضبوط انڈسٹری ہے۔اس کو بھی پروموٹ کرناچاہیے اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً پاکستانی صنعت کی نمائش کی جائے اور بین الاقوامی سطح پر اس کو پروموٹ کیا جائے۔
ان تمام اقدامات کی بدولت اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ ہماری ثقافت ، صنعت اور سیر وسیاحت کو پوری دنیا میں فروغ ملے گا اور پاکستان کا ایک بہترین چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا۔

(3)تصویر کا دوسرا رُخ
قدیم زمانے میں یورپی مصنفین جب مسلم ممالک کادورہ کرتے تو ان کوقلم بند کرتے ہوئے مسلمانو ں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کونمایاں کرتے جب کہ ان کے شاندار کارناموں کو نظر انداز کردیتے ۔ان کی لکھی کتابیں تاریخ کا حصہ بن جاتیں اوربعد میں لوگ جب ان کا مطالعہ کرتے تو وہ سمجھتے کہ مسلمان ایک ناکام قوم ہے جو اپنے ادب و تہذیب اورقومی اثاثو ں کو بھی سنبھال نہ سکی۔آج کے زمانے میں یہ کام ہمارا میڈیا کررہا ہے ۔صرف منفی واقعات کو ہیڈلائنز بناکر پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اچھاکام ہوہی نہیں رہا۔اس صورت حال میں اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ میڈیا تصویر کا دوسرا رُخ بھی دکھائے اور معاشرے میں ہونے والے مثالی کاموں کو بھی پیش کرے تاکہ پاکستانی قوم میں اعتماد پیدا ہو۔

(4)اردو ادب ، بین الاقوامی سطح پر
یہ ہم پر اللہ کا کرم ہے کہ ہمارے پاس ادب کی ایک روشن تاریخ موجو دہے۔کہانی ، افسانہ، ناول اور داستان گوئی کے ذریعے ایسے بہترین کردار لکھے گئے جنھوں نے معاشرتی اصلاح میں بھرپور کردار ادا کیا۔یہاں کے ادبا و مصنفین علم و حکمت کے اعتبار سے کسی بھی قوم کے ادیبوں سے کم نہیں اور ان کے لکھے ادب کو نصاب کا حصہ بنایاجاسکتاہے۔آج کل پاکستان میں فرنچ اور روسی ادب کااردو ترجمہ مقبول ہورہا ہے،اگریہ ہوسکتاہے تو پھرہمارے اس شاندار ادب کو بھی انگریزی، فرانسیسی اور روسی زبان میں منتقل کیاجاناچاہیے تاکہ ہمارے مشاہیر کے علم و دانائی سے باقی دنیا مستفید ہو اورہمارا ایک بہترین روپ دنیا کے سامنے آجائے۔

(5)انگریزی چینل کاقیام
انٹرنیشنل میڈیا پاکستان کے بارے میں پچاس فیصد تک منفی خبریں نشر کررہاہے۔اس کاتوڑایک ہی ہے کہ ہمارے پاس بھی انگریزی چینلز ہوں۔بدقسمتی سے یہاں یہ میدان خالی ہے جبکہ پڑوسی ملک کی طرف اگر دیکھیں تو وہاں 700چینلز ہیں جن میں سے 300چینلزانگریزی کے ہیں۔اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان میں انگریزی چینلز کا قیام عمل میں لایاجائے جو انٹرنیشنل میڈیا کی برابری کرے اوربین الاقوامی سطح پر ہمارے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کاسدباب کرے۔

(6)آج کونٹنٹ کادور ہے
صحافی اور استاد معاشرے کے ایسے ارکان ہیں جو معاشرے کو کونٹنٹ دیتے ہیں۔استاد کا کونٹنٹ جس قدر بہترین ، موثر اور سبق آموز ہوگا اسی قدر معاشرے میں اقدار و روایات پروان چڑھیں گی اور تربیت کاسلسلہ بہترین ہوگا۔اسی طرح صحافی جس قدر مثبت اورحقائق پر مبنی کونٹنٹ میڈیا کو دے گا اسی قدر اس قوم کاسافٹ امیج دنیا کے سامنے آئے گا ۔آپ اگر پڑوسی ملک کا کونٹنٹ دیکھیں تو ان کی بعض ویڈیوزاتنی ایموشنل ہیں جنھیں دیکھ کر انسان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ہمیں بھی موثر اور انوکھا کونٹنٹ پیش کرنا چاہے اور شارٹ فلمز کی طرف آناچاہیے۔بدقسمتی سے ہمارا صحافی موثر اور سبق آموز کونٹنٹ کے بجائے ’’اندر کی خبر‘‘ لانے کے لیے زیادہ کوششیں کرتاہے ۔یہاں کونٹنٹ دل سے نہیں بنایاجاتا بلکہ ریٹنگ کے لیے بنایاجاتاہے اور اسی وجہ سے اس میں جان نہیں ہے۔

(7)معاشرے کوسدھارنے والے عوامل
کتاب ، لیڈر اوررائے عامہ بنانے والے لوگ، یہ تین ایسے عوامل ہیں جو معاشرے کو سدھارسکتے ہیں۔ہمیں کتاب کو فروغ دینا چاہیے۔اس سے نئے افکار اور نئے خیالات جنم لیتے ہیں اور معاشرے میں مثبت تبادلہ خیال بڑھتاہے۔اس کے ساتھ ساتھ لیڈرز کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر کام کرنے والے جوانوں کی رہنمائی کریں۔اس میدان میں بہت اچھا کام ہورہا ہے لیکن احساس ذمہ داری کی کمی ہے۔اگر ہمارے یوٹیوبرز احساس ذمہ داری سے لبریز ہوجائیں تو وہ معاشرے کو بہتری کی طرف لے جانے میں ایک شاندار کردار ادا کرسکتے ہیں۔

(8)ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ
ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی بدولت کوئی بھی قوم شاندار ترقی کرسکتی ہے۔آج پوری دنیا میں امریکہ کا رُعب اسی وجہ سے ہے کہ وہ تحقیق کے میدان میں سب سے آگے ہے۔اس سال2022ء میں امریکہ نے ایک کھرب چالیس ارب ڈالر کی خطیر رقم ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے لیے مختص کی ہے۔کیوں کہ وہ یہ بات جانتاہے کہ اس چیز کا براہ راست تعلق قومی تشخص کے ساتھ ہے۔آج کی دنیا میں اسی قوم کا دبدبہ ہے جس کے پاس علم اور کونٹنٹ ہے۔امریکہ دنیابھر کے اعلیٰ دماغوں کو ’’سیلی کان ویلی ‘‘ مدعو کرتاہے اور انھیں پرکشش آفر دیتاہے تاکہ نیا علم ایجاد کیاجائے اور دنیا بھرمیں اپنے شاندارقومی تشخص کو پروان چڑھایاجائے۔
ہمیں بھی ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے میدان میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور سالانہ کم از کم 10ارب کی رقم اس مقصد کے لیے مختص کرنی چاہیے تب ہی ہم ترقی کی جانب سفرکرناشروع کرسکیں گے۔

Related Posts