مشکل ترین حالات میں تین چیزیں بچائیے

مشکل ترین حالات میں تین چیزیں بچائیے
(قاسم علی شاہ )
انگلینڈ جانا اتل کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ وہ کوشش کرتا رہا اور کافی تگ و دو کے بعد لندن پہنچ گیا۔ زندگی بدلنے کے لیے وہ بھر پور محنت کرنے لگا۔ ایک سال بعد وہ Raynaud کا شکار ہوگیا۔ یہ ایسی بیماری ہے جس میں جسمانی اعضا تک خون کم مقدار میں پہنچتا ہے۔ اتل کی انگلیوں تک خون کی رسائی کم ہوگئی جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ کمزور ہونا شروع ہوگئے۔اس کا آپریشن ہوا لیکن بدقسمتی سے وہ انگلی سے محروم ہوگیا۔ اس حالت میں وہ مشقت والا کام نہیں کرسکتا تھا چنانچہ وہ سیکیورٹی گارڈ کے طورپر کام کرنے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کورونا کی وبا تیزی سے پھیل رہی تھی۔ ملک میں لاک ڈاؤن لگ گیا اور اس کی کمپنی بند ہوگئی۔ اس دوران اسے خبر ملی کہ ا س کا باپ کورونا میں مبتلا ہوچکا ہے۔ ماں پہلے سے کینسر کی جنگ لڑ رہی تھی، چنانچہ وہ فوری طور پر اپنے ملک پہنچا، لیکن والدین کی حالت آئے روز خراب ہوتی جارہی تھی اور کچھ دن بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ ماں باپ کی جدائی نے اسے رُلا دیا۔ وہ ٹوٹے دل کے ساتھ انگلینڈ آگیا لیکن یہاں ایک اور آزمائش اس کی منتظر تھی۔ اس کا Universal Payment Card بند ہوگیا جس کی وجہ سے اسے شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے کارڈ بحال کروانے کے لیے کافی کوشش کی لیکن کام یاب نہ ہوسکا۔ نوکری نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاس پیسے ختم ہوگئے تھے۔ رہائش کے لیے جگہ نہیں تھی، چنانچہ وہ فٹ پاتھ پر رہنے لگا۔ کبھی وہ بس میں سو جاتا، کبھی ٹرین میں اور کبھی کسی گلی میں جاکر رات گزارتا۔ معاشی تنگی نے اسے بے بس کردیا تھا۔ وہ ایک لقمے کھانے اور ایک گھونٹ پانی کے لیے ترسنے لگا۔ لاک ڈاون طویل ہوتا گیا۔ اذیت کی وجہ سے وہ شوگر کا مریض بن گیا۔ اسے لگ رہا تھا کہ فٹ پاتھ میرا مقدر ہے اور لاک ڈائون ختم ہونے سے پہلے میری سانسیں ختم ہو جائیں گی۔ دن رات وہ شدید ذہنی اذیت میں گزار رہا تھا اور قریب تھاکہ حالات سے مجبور ہوکر وہ زندگی کا خاتمہ کردے لیکن اس کے اندر اُمید کی ہلکی سی کرن روشن تھی جو چپکے چپکے اسے یقین دلاتی کہ مصیبت کے دن ختم ہوجائیں گے اور تم فٹ پاتھ کے ٹھنڈی فرش کے بجائے نرم بستر میں آرام کرو گے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ مایوسی اس پرحملہ آور ہوئی اور اسے فرار اختیار کرنے کی ترغیب دی لیکن اس نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا اور سات ماہ تک بدترین حالات کا سامنا کرتا رہا۔ بالآخر قدرت کو اس کی حالت پر رحم آگیا۔ اسے ایک فلاحی ادارے کے بارے میں معلوم ہوا جو بے گھر لوگوں کی مدد کرتا تھا۔ اگلے روز اتل وہاں پہنچ گیا۔ ٹرسٹ والوں نے اس کی حالت دیکھی تو فوری طورپر اس کا علاج کروایا، اس کا پیمنٹ کارڈ بحال کروایا اور اس کی رہائش کا بندوبست بھی کر دیا۔ چند روز بعد اسے کام مل گیا ۔وہ شخص جس کے سرپرچھت نہیں تھی اور ایک وقت کے کھانے کے لیے ترس رہا تھا، اب اس کے پاس گھر بھی تھا، نوکری بھی تھی اور خوش حال زندگی بسر کرنے کے لیے رقم بھی۔

برطانوی مصنف Samuel Smiles کہتا ہے کہ اُمید سورج کی مانند ہے ۔جیسے جیسے ہم اس کی طرف بڑھتے ہیں تو ہمارے بوجھ (مصیبت) کاسایہ بھی کم ہوتا جاتا ہے۔

اُمید پر دنیا قائم ہے۔ ہر انسان کے ذہن میں اُمید ہوتی ہے جس کے سہارے وہ رات کو گہری نیند سوتا ہے اور صبح اُٹھ کر متحرک ہوجاتا ہے۔ اُمید کی بدولت انسان مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ وہ اپنے لیے Time frame ترتیب دیتا ہے اور سوچتا ہے کہ ایک سال بعد میں نے یہاں پہنچنا ہے، پانچ سال بعد میں نے یہ مقام حاصل کرنا ہے اور دس سال بعد میں نے فلاں فلاں اہداف پورے کرنے ہیں اور اپنے آپ کو موجودہ حالت سے دس گنا بہتر کرنا ہے۔

ہم جس دور میں رہ رہے ہیں یہ کئی لحاظ سے کٹھن ہے۔ ملک میں اس وقت سیاسی بحران چل رہا ہے جس نے عوام کو کئی گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر سیاسی تعصب انتہا پر ہے جس کی وجہ سے باہمی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ ہم شدید مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ پٹرول، بجلی اور ڈالرکی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے متوسط طبقہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ حالیہ بجلی کے بلوں نے عوام کو سراپائے احتجاج بنا دیا ہے۔ اس وقت ہر شخص معاشی تنگ دستی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ذہنی تناؤ بڑھ رہا ہے اور مختلف منفی رویوں کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔

ان تمام حالات میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے وہ اُمید ہے۔ مزدور سے لے کر سرمایہ دار تک ہرشخص اُمید سے محروم نظر آرہا ہے۔ میرے ایک دوست کا پچاس سے زیادہ Outlets پر مشتمل وسیع کاروبار ہے، لیکن وہ بھی پریشان ہے۔ اس کے بقول خریداری کم ہو رہی ہے، چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے دکانوں کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ دوسری طرف متوسط طبقے کا جائزہ لیں تو وہ بھی بہت مشکل کے ساتھ گھر کے اخراجات پورے کر رہا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ کورونا بحران اس صدی کاسب سے مشکل ترین وقت تھا لیکن 2023ء کے حالات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ وقت کورونا بحران سے زیادہ مشکل ہے۔ دراصل طویل عرصے سے ملک میں جاری سیاسی افراتفری دیکھ کر ہر شخص گھبرا گیا ہے، وہ مستقبل کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے کہ میرا اور میرے بچو ں کا کیا بنے گا۔ یہ مایوسانہ فکریں معاشرے میں گھٹن بڑھا رہی ہیں اور اکثر لوگ اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کوترجیح دے رہے ہیں جو نہ صرف معاشرے کے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔

ان حالات میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم تین چیزوں کو اثاثہ سمجھ کر بچالیں۔ اگر ہم نے ان کی حفاظت کی تویقین جانیں ہم ان حالات کا مقابلہ کرکے بہت جلد خوش گوار زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے اور اگر خدانخواستہ یہ چیزیں ضائع ہوگئیں تو پھر ہم اس سے زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرسکتے ہیں۔

(1)آپ کی ذات
انسان کے اوپر سب سے بڑا حق اس کی اپنی جان کا ہے اور اس کی تائید حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ تمھاری جان کا بھی تم پر حق ہے۔ ( صحیح بخاری،حدیث نمبر:1968)
یہ جسم اللہ کا عطا کیا ہوا ہے اور اس بارے میں ہر انسان سے سوال کیا جائے گا۔ لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ انسان اپنے آپ کا خیال رکھے غیر یقینی حالات اور مہنگائی کے طوفان سے خود کو بچانا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ آپ کے دم سے سب کچھ قائم ہے۔ اگر آپ نہیں رہے تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ وہ تمام لوگ جو گھر کے سربراہ اور کفیل ہیں، ان کی مثال ملاح جیسی ہے جو حالات کے بھنور سے اپنے خاندان والوں کو بہ حفاظت نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ایسے میں ان کے لیے جسمانی، ذہنی اور جذباتی طورپر صحت مند رہنا بہت ضروری ہے۔اگر خدانخواستہ کوئی فرد ہمت ہار گیا تو وہ اپنے خاندان والوں کو کیسے سنبھالے گا۔

میدان جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والاشخص یقینی طورپر بہت بڑی قربانی دیتا ہے اور جو شخص بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرے اور جنگ سے زندہ لوٹے وہ غازی کہلاتا ہے اوریہ بھی فضیلت والا مقام ہے۔ آج ہر پاکستانی اپنے خاندان کے لیے کئی جنگیں لڑرہا ہے لیکن ان جنگوں میں اپنی جان نچھاور نہیں کرنا بلکہ بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ مرنا مشکل کام نہیں۔ گولی لگنے سے، چندقطرے زہر کھانے سے یا ایکسیڈنٹ میں سرپر چوٹ لگ جانے سے چند انسان مرجاتا ہے لیکن وہ شخص جو روز مشکلات کا سامنا کرتا ہے، روز رکاوٹوں کو عبور کرتا ہے،روز تلخ گھونٹ پی کر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے اور استقامت کے ساتھ ڈٹا رہتا ہے تو وہ یقینا داد و تحسین کا مستحق ہے۔

(2)رشتے
جب انسان بحران کا شکار ہوتا ہے تو اس دوران رشتے کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں، کیوں کہ فرد ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنے مسائل کے حل کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ تنہا رہنا چاہتا ہے۔ وہ گھر والوں اور رشتہ داروں کومناسب وقت نہیں دیتا۔ وقت نہ دینے کی وجہ سے آپس میں بات چیت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے بعض اوقات غلط فہمیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ بحران کی وجہ سے فرد مالی تنگی کا شکار ہوتا ہے لیکن رشتہ دار اس سے اُمید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور جب ان کی اُمیدیں پوری نہیں ہوتی تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ مسائل کی وجہ سے انسان غم، غصہ، ڈر اور چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے اس رویے کا اثر گھر والوں پرپڑتا ہے جس کی وجہ سے رشتے کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

بحران کے وقت انسان رشتوں کی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس حالت میں صبر، برداشت اور جذباتی مضبوطی کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اسے چاہیے کہ رشتوں کو کمزور نہ ہونے دے اور ہر حال میں انھیں مضبوط رکھنے کی کوشش کرے، کیوں کہ یہ اس کا اثاثہ ہے۔

(3)اُمید
جب انسان کی اُمید زندہ ہو تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی خوب صورت بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اُمید روشنی کی وہ کرن ہے جو انسان کو بد ترین حالات میں بھی مایوس نہیں ہونے دیتی اور وہ سخت ترین جنگیں لڑ کر بہادری کے ساتھ زندگی کی طرف واپس آتا ہے۔ اُمید انسان کو ثابت قدم بناتی ہے۔ یہ اُسے جذباتی مضبوطی عطا کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کے حالات میں بھی مثبت رہتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ جن افراد میں اُمید کا مادہ زیادہ ہوتاہے وہ تناؤ، اضطراب اور چڑچڑے پن کا شکار نہیں ہوتے اور ذہنی طورپر صحت مند ہوتے ہیں۔ اُمید انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے جس کی بدولت وہ اپنے مسائل بہترین انداز میں حل کرسکتا ہے۔ اُمید انسان کو زندہ رکھتی ہے، اس کے جذبوں کو تازگی بخشتی ہے، اسے نئی منزلیں حاصل کرنے پر ابھارتی ہے۔ اسی کی بدولت وہ خواب دیکھتا ہے اور نئے قدم اٹھاتا ہے۔

اُمید زندگی ہے۔ اُمید کا دیا ہمیشہ روشن رکھیے اور اس قدر ضرور رکھیے کہ دل جینے پر آمادہ رہے۔ یہ وقت جتنا بھی مشکل ہے، ایک دن ختم ہوجائے گا۔ یہ رات اگر چہ تاریک ہے لیکن اس کے بعد سحر ضرور آئے گی۔ اُمید آپ کی زندگی کا اثاثہ ہے، ہر حال میں اس کی حفاظت کیجیے اور خاص طورپر ایسے لوگوں سے دور رہیے جو اُمید چھیننے والے ہیں۔ اُمید کو ختم ہونے نہ دیجیے کیوں کہ اگر یہ ختم ہوگئی تو زندگی بھی ختم ہو جائے گی۔

Related Posts