Transform every day into a masterpiece.

ہر دن کو شاہکار بنائیں
(قاسم علی شاہ)
وہ جادوگر کے نام سے مشہور تھا۔ وہ باسکٹ بال کا گرو تھا۔ وہ گراؤنڈ میں کھیل کے دوران ایسی خودکش چھلانگیں لگاتا کہ حریف ٹیم سر پکڑ کر بیٹھ جاتی، اس کے کھیل کے انداز میں ایسی پھرتی اور ذہانت ہوتی تھی کہ مد مقابل کی نظروں کے سامنے سے بال اچک لیتا اور پلک جھپکتے میں باسکٹ گول میں ڈال دیتا۔ اپنے کرئیر میں اس نے بے شمار کامیابیاں حاصل کیں اور اسی وجہ سے اس کا شمار امریکہ کے دس عظیم کھلاڑیوں میں ہونے لگا۔ 1932ء میں ا س نے کوچنگ شروع کی تو اس میدان میں بھی اس کا جادو سرچڑھ کر بولنے لگا۔ وہ ’’اوکلا بروئینز‘‘باسکٹ بال ٹیم کی کوچنگ کرنے لگا اور اگلے دس سالوں میں اس نے اپنی ٹیم کو دس بار NCCA چیمپئن شپ جتوائی اور اس کے بعد اس کی ٹیم نے باسکٹ بال کھیل میں تقریباً 88 ریکارڈز قائم کیے۔
یہ باسکٹ بال کی تاریخ کا سب سے معزز کوچ ’’جان ووڈن‘‘ تھا جس کی شان دار کوچنگ صلاحیتوں کی بدولت اسے سات بار’’ National Coach of the Year‘‘ کا ایوارڈ جبکہ پانچ بار AP ایوارڈ سے نواز اگیا۔ وہ واحد انسان تھا جس کو بحیثیت کھلاڑی اور کوچ کے ’’ہال آف فیم‘‘ میں بھی جگہ ملی۔ وہ کھلاڑی سے زیادہ کوچ کی حیثیت سے مشہور ہوا کیوں کہ وہ اپنی ٹیم کے سامنے کھیل کی تکنیک بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے جوشیلے فقرے بھی بول دیتا جس کی بدولت کھلاڑی جیت کے لیے جان کی بازی لگا دیتے۔ اپنے 29 سالہ کوچنگ کرئیر کا نچوڑ اس نے اپنے فلسفے’’The Pyramid of Success‘‘میں واضح کیا ہے۔ یہ انسانی رویوں اور عادات کا ایک فریم ورک ہے جس کی بدولت کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ اسی فریم ورک پر وہ اپنی ٹیم کی کوچنگ کرتا اور اسی بنیاد پر وہ لگاتار کامیابی کے جھنڈے گاڑتی چلی جاتی۔ کامیابی کے متعلق اس کے فلسفے اور نظریات سے نہ صرف کھیل بلکہ بزنس، Personal Success اور لیڈرشپ کے میدان میں بھی بھرپو ر استفادہ کیا جاتا رہا ہے؛ لیکن باسکٹ بال کے اس جادوگر اور کامیابی کے موضوع پر شان دارمہارت رکھنے والے انسان کے سارے وزڈم کا خلاصہ ایک جملے میں تھا۔ وہ کہتا ہے جب میں چھوٹا تھا تو مجھے میرے باپ نے کہا تھا: Make each day your masterpiece (اپنے ہر دن کو شاہکار بنادو)۔
ہر دن کو شاہکار بنانے کا فلسفہ اس قدر کارآمد ہے کہ یہ انسان کی ساری زندگی کو شاہکار بنا دیتا ہے۔ ا س بات کو یہیں پر روک کر ہم 2023 کی طرف بڑھتے ہیں۔
آپ کو نیا سال مبارک ہو۔ نیا سال شروع ہوچکا ہے اور حسب سابق اس بار بھی آپ نے کچھ ارادے، کچھ خواب اور کچھ عزائم مقرر کرلیے ہوں گے۔ آپ کے دل میں یہ خواہش ہوگی کہ آنے والا سال میری زندگی کا ایک بہترین سال اور گذشتہ سالوں سے کچھ ہٹ کر ہو۔ آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے ایک بہترین فیصلہ کیا ہے۔ اب آپ نے اگلاسال کیسے ترتیب دینا ہے اسی کے متعلق آج کی تحریر میں چند اہم باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔
میرا آپ سے ایک سوال ہے۔ آپ نے جنگل تو دیکھا ہوگا، نہ بھی دیکھا ہو توتصویر وغیرہ دیکھی ہوگی۔ آپ جنگل کو دیکھیں تو وہاں ہر طرف آپ کو ہرے بھرے اور تازگی سے بھرپور درخت ملیں گے۔ جنگل میں یہ سدا بہار ہریالی کیسے ہوتی ہے؟
دراصل جنگل کے درختوں کو اپنی زندگی میں بار بار ایک امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ امتحان طوفانی ہواؤں، بھڑکتی آگ، کیڑے مکوڑو ں اور دیگر خطرات کی صورت میں ہوتا ہے۔ کبھی کبھار ایسی خوفناک اور تند و تیز ہوائیں چلتی ہیں کہ درختوں کو اکھاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اب ایسے میں جن درختون کی عمر مکمل ہوچکی ہوتی ہے، وہ گر جاتے ہیں۔ جن درختوں کی شاخیں سوکھ چکی ہوتی ہیں، وہ ٹوٹ جاتی ہیں۔ اسی طرح بعض دفعہ درختوں کو کوئی مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ انھیں ایسا کیڑا لگ جاتا ہے جو اُن کی شاخوں کو کھوکھلا کر دیتاہے، کھوکھلی شاخیں چند ہی دنوں میں ٹوٹ کر درخت سے الگ ہوجاتی ہیں اور اس تمام مرحلے کے بعد درخت ایک نئے روپ میں نکل آتے ہیں۔ وہ پہلے سے زیادہ توانا، خوب صورت اور ہریالی سے بھرجاتے ہیں۔اگر درخت کی زندگی میں یہ آزمائش اور بحران نہ ہو تو وہ کمزور شاخوں اور کھوکھلے تنے کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا۔ یہ قدرت کا اصول ہے کہ جس چیز نے بھی نئے روپ میں آنا ہے، اس کو پرانا روپ چھوڑنا پڑے گا۔
نئے سال کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم گولز تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی چیز ذہن میں رکھیں۔ آپ نے خود کو تبدیل کرنا ہے کیوں کہ اصل مقصد ہی تبدیلی ہے۔ آپ گزشتہ سے بہتر تب ہوں گے جب آپ تبدیل ہوجائیں گے۔ انقلابی تبدیلی کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ آپ اپنے پرانے روپ کو چھوڑ دیں۔ یہ عمل آپ کو مشقت میں ڈال سکتا ہے لیکن جنگل والی مثال ذہن میں رکھیں کہ آزمائش کا مطلب ذات کا نکھار ہوتا ہے۔
تبدیلی کے متعلق آپ کے ذہن میں سوال ہوگا کہ ہم کہاں کہاں پر خود کو تبدیل کریں؟
انسان کی زندگی میں چار ایسے بنیادی اہداف ہیں جن کے لیے وہ شعوری یا لاشعوری طورپر محنت کرتا ہے اور دراصل یہی وہ اہم چیزیں ہیں جو اگر کسی انسان کی درست ہوجائیں تو وہ اپنے آپ کو کامیاب کہلوانے کا حق رکھتا ہے۔
(1)صحت:
صحت ایک ایسی بے مثال نعمت ہے جو اگر ایک دفعہ روٹھ جائے تو اس کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے انسان بڑی سے بڑی قیمت چکانے کو بھی تیار ہوتاہے۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو ہمارے کھانے پینے کی روٹین اور خوراک انتہائی ناقص ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ جنک فوڈ کے شوقین ہیں جو کہ بذات خود کسی بیماری سے کم نہیں۔ دوسری عادت حد سے زیادہ کھانے کی ہے۔ ہم پیٹ بھرنے سے زیادہ صرف زبان کے ذائقے اور منہ کے چٹخارے کے لیے کھاتے ہیں۔ ہمیں صحت مند خوراک اور ناقص خوراک کا علم نہیں اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ کب، کس وقت اور کتنا کھانا ہے۔ چنانچہ آج آ پ کو نان چنے، حلیم، سموسے اور پکوڑوں کی دکان پر طویل قطاریں نظر آئیں گی جبکہ جاگنگ ٹریکس خالی۔ یہ وہ عوامل ہیں جو براہ راست ہماری صحت پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور اسی وجہ سے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی مستقل بیمار موجود ہے۔ ہر کمانے والے انسان کی کمائی کا ایک حصہ دوائیوں پر نکل جاتا ہے۔
لہٰذا نئے سال میں اپنی صحت کو ترجیح اول بنائیں۔اپنی خوراک کامعیار چیک کریں اور ناقص چیزیں بالکل بھی نہ کھائیں۔اس کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ورزش کے لیے وقت نکالیں اور کوئی نہ کوئی جسمانی سرگرمی ضرور کریں۔
(2)معاش:
بچپن سے ہی والدین بچوں کی تعلیم کی فکر شروع کردیتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اکثراوقات بھار ی بھرکم فیسوں کی صورت میں اپنی استطاعت سے زیادہ بوجھ بھی اٹھالیتے ہیں۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ بچوں کے نمبرز اچھے آجائیں، وہ اعلیٰ ڈگری حاصل کریں اور اس کے بعد ایک شان دار نوکری۔ جبکہ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ آج ہزاروں پی ایچ ڈیز بے روزگار پھر رہے ہیں۔ کیا مطلب ہے اس کا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین اور آج کی نسل ٹرینڈ کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ جہاں لاکھوں لوگ پہلے سے ہی موجود ہوں تو وہاں مقابلہ بھی انتہائی سخت ہوگا اور چانس ملنے کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر۔
نئے سال میں اس چیز کا عہد کریں کہ اپنے لیے نئے میدان دریافت کرنے ہیں۔ اپنے اندر موجود قابلیت اور صلاحیت کو نکھار ناہے۔ انٹرنیٹ پر قابل اور باصلاحیت انسان کے لیے رزق کمانے کے ہزاروں راستے موجود ہیں، انھیں تلاش کریں اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر اچھا ذریعہ معاش اپنائیں۔
(3)تعلق/رشتے:
انسان کی زندگی میں اگر مخلص اور خیال رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو ہر طرح کی سہولیات اور تعیشات کے باوجود بھی اس کی زندگی بے رونق ہوگی۔ انسان، انسانوں کے دم سے ہی زندہ ہے۔ہر انسان ایک ایسے شخص کی آروز کرتاہے جو اس کو سنے، اس کے ساتھ باتیں کرے اور اس کی خوشی غمی میں شریک ہوں، لیکن آج کل کی مصروف ترین زندگی اور سوشل میڈیا کے بے ہنگم استعمال نے رشتوں کو کمزور کرنا شروع کردیا ہے۔ اب ایک گھر میں رہنے والے لوگ بھی بظاہر قریب ہوتے ہیں لیکن دلی طورپر ایک دوسرے سے کافی دور جاچکے ہوتے ہیں اور یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
نئے سال میں کوشش کیجیے کہ اپنے رشتوں کو مضبوط بنائیں۔ جو تعلق کمزور ہوچکا ہے یا کچھ مخلص لوگ آپ سے دور چلے گئے ہیں انھیں دوبارہ اپنی زندگی میں شامل کرلیں، کیوں کہ یہی رشتے اور انسان ہی کل آپ کے کام آئیں گے اور آپ کو جذباتی طور پر مضبوط کریں گے۔
(4)دلی سکون:
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود کو مادی طورپر کامیاب کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگرہمارے پاس بہت سارا پیساہو ، قیمتی گاڑی اور گھر ہو توان کی بدولت ہمیں خوشی اورسکون مل جائے گا۔جبکہ یہ ہماری ایک بڑی غلط فہمی ہوتی ہے کیوں کہ زندگی بھر کی محنت کے بعد جب ہم اپنی خواہش کے مطابق چیزیں حاصل کرلیتے ہیں تو اس کے بعد بھی ہم خوش نہیں ہوتے ۔سب کچھ ہونے کے باوجود بھی لگتاہے کہ کچھ Missingہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟
دراصل ہم اگر اس وقت زندہ ہیں تو وہ روح کی بدولت ہیں اور جب ہم مادیت کے پیچھے بھاگتے بھاگتے روح کوبالکل ہی نظرانداز کردیتے ہیں تو وہ کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے۔جیسی جیسی وہ کمزور ہوتی جاتی ہے، ویسے ویسے ہمارے اندر بے چینی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ ہم بے سکونی اور اضطراب کا شکار ہوتے جاتے ہیں اور پھر ہمارے پاس مادی چیزیں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، یہ ہمیں سکون نہیں دے سکتیں۔ اس لیے روح کو خوراک دینا بہت ضروری ہے اور اس کی خوراک اللہ کا ذکر اور خواہشات کو کم کرنا ہے۔
اس نئے سال میں اپنے رب کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں۔ خود کو روحانی طورپر طاقتور بنائیں۔ آپ روحانی طورپر اگر مضبوط ہوں گے تو پھر زندگی میں جتنی بھی بڑی آزمائش اور بحران آجائے، آپ کے قدم نہیں ڈگمگمائیں گے۔ آپ ہر حالت میں پرسکون اور مطمئن رہیں گے۔
یادرکھیں کہ تبدیلی کے لیے استقامت بہت ضروری ہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ نئے سال کی آمد پر لوگ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ پلاننگ کرلیتے ہیں لیکن 90سے 95 فی صد لوگ 15جنوری کے بعد واپس اپنی پرانی روٹین پر آجاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اپنے اندر استقامت کیسے پیدا کی جائے تاکہ ہم نے اپنے لیے جو پلاننگ کی اس پر لگاتار عمل کریں اور خود کو بہتر بنائیں؟
تحریر کے آغاز میں ہم نے ’’جان ووڈن‘‘ کا ایک جملہ نقل کیا تھا کہ اپنے ہر دن کو شاہکار بنانا ہے۔ اسی سوچ کو ہر پل ذہن میں رکھیں۔ یہ آپ کے جذبوں کو تحریک دے گی۔ یہ آپ کو موٹیویٹ کرے گی اور آپ کو سوچنے پر مجبور کرے گی کہ اپنے ہر دن کو کس طرح ایک شاہکار دن بنانا ہے۔ آپ کا’’ایک دن‘‘ اگر ٹھیک ہوتا ہے تو اس طرح کرتے کرتے ’’ایک ہفتہ‘‘ٹھیک ہوجائے گا، اسی طرح ایک مہینہ، ایک سال اور اس کے بعد پوری زندگی شاہکار بن جائے گی۔
استقامت کے لیے دوسری ٹپ یہ ہے کہ آپ جو بھی کام کریں اس میں اپنی تمام تر توانائیاں جھونک دیں۔ اس میں اپنا The Best دے دیں اور اس کو اس انداز میں مکمل کریں کہ کام کو فخر ہو کہ آپ نے اس کو مکمل کیا ہے۔
تیسری ٹپ یہ ہے کہ اپنے کام میں معاوضے سے زیادہ محنت کریں۔ آپ کا نفس آپ کو ورغلا سکتا ہے کہ جب ایک چیز کا معاوضہ ہی نہیں مل رہا تو پھر اتنی خواری کی ضرورت کیا ہے لیکن آپ نے اس کی بات پر دھیان نہیں دینا اور یہ بات ذہن میں رکھنی ہے کہ آپ جو محنت کررہے ہیں اس کاصلہ مستقبل میں ضرور آپ کو ملنے والا ہے ۔جب آپ اپنے ہر کام میں The Best دیں گے تو اس کی بدولت آپ کو کام کرنے میں مزہ آئے گا اور آپ کے لیے ترقی کے راستے کھلیں گے۔

Related Posts