If there is life there is World

جان ہے تو جہان ہے
(قاسم علی شاہ)

’’بڑھاپاایک مرض ہے اور اس سے چھٹکارا ممکن ہے۔‘‘
یہ پڑھ کر آپ کے ذہن کو جھٹکا لگا ہوگا اور سب سے پہلا سوال آپ کے دماغ میں گونج رہا ہوگا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟کیونکہ ہر انسان کی زندگی میں بچپن کے بعد جوانی اور پھر بڑھاپاضرورآتا ہے مگر آسٹریلوی سائنس دان ڈیوڈ سنکلیئر نے ایسا ہی ایک حیرت انگیز دعویٰ کیا ہے ۔20سال سے زائد عرصے پر مبنی اس تحقیق میں انھوں نے جن ادویات پر کام کیا ، ان کے بار ے میں ڈیوڈسنکلیئرکا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ہم ان دوائیوں کے ذریعے بڑھاپے کو روکنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور پھر انسان لمبے عرصے تک جوان رہے گا۔

ڈیوڈسنکلیئر سائوتھ ویلز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد آج کل ہارورڈیونیورسٹی میں ایک لیبارٹری کے انچارج ہیں ۔بہت ساری نادر کامیابیوں کی بدولت انھیں کئی سائنسی اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔جب ان کا یہ دعویٰ سامنے آیا تو اس نے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا۔مغرب کے لوگ ویسے بھی لمبی عمر پانے کے کچھ زیادہ ہی خواہش مند ہوتے ہیں ۔اسی لیے وہ صحت اور فٹنس کے لیے بڑے جتن کرتے ہیں ۔ایکسرسائز اور ڈائیٹ ان کی زندگی کا لازمی جز ہے۔ایسے میں جب انھوں نے یہ بات سنی کہ اب انسان اپنے بڑھاپے کو روک سکتا ہے تو ان کی دلچسپی اس ریسرچ میں بڑھنے لگی اور یوں ڈیوڈسنکلیئر کے اس نظریے کو بھرپور مقبولیت ملنے لگی ،مختصر عرصے میں ان کی شہرت پھیل گئی اوردیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک سیلبریٹی بن گئے ۔یہاں تک کہ ٹائم میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ڈیوڈ سنکلئیر کا شمار دنیا کی 100بااثر ترین شخصیات میںہونے لگاہے۔

خود کو تاحیات جوان اور صحت مند رکھنے کا تصور آج کی دنیا میں تیزی سے بڑھ رہا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس نے ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کرلی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء میں اس انڈسٹری کا منافع 110ارب ڈالر تھاجو کہ 2025ء میں 600ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ڈیوڈسنکلیئر اپنے دعوے میں کس حدتک کامیاب ہوتے ہیں ، یہ آنے والا وقت بتائے گا ، البتہ اس معاملے میں قابل توجہ چیز لوگوں کی بھرپور دلچسپی لینا اور بڑھتے بڑھتے اس کا انڈسٹری کی شکل اختیار کرلیناہے۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ لمبی عمر چاہتا ہے ، ہمیشہ جوان اور صحت مند رہنا چاہتا ہے لیکن یہ سب چیزیں Outputہیں۔اصل چیز وہ Inputہے جو ہم اپنے جسم کو دیتے ہیں ۔اس Inputکی ایک شکل خوراک ہے اور دوسری شکل وہ چیزیں ہیں جو ہم دیکھتے اور سنتے ہیں ۔یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ کسی مشین میں جس طرح کا خام مال ڈالاجائے گا، تو پراڈکٹ بھی اسی معیار کانکلے گا۔ہمارا کھانا پینا اوردیکھنے سننے کا انداز اگر درست اور معیاری ہوگا تو ہمارا جسم بھی تندرست اور صحت مند رہے گااور اگر ایسا نہیں ہے تو پھربیمار پڑنے اور وقت سے پہلے بوڑھا ہونے میں ہمیں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

بزنس کا بنیادی اصول ہے کہ وہ معاشرے کی ترجیحات اور ضروریات کے مطابق شروع کیا جاتا ہے۔ہم اگر اپنی مارکیٹوں اور گلی محلے کی دکانوں کا جائزہ لیں تو ہمیں دوطرح کی دکانوں کی کثرت ملتی ہے۔بیکری سٹورزاورمیڈیکل اسٹورز ۔میڈیکل اسٹورز کی کثیر تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم میں سے ہر دوسرے شخص کی زندگی دواؤں کے سہارے گزررہی ہے اور دوائی کا استعمال اس بات کی علامت ہے کہ ہم اپنی صحت کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ۔

شارٹ کٹ کی عادت کہہ لیں کہ ہم معمولی تکلیف اور بیماری میں بھی میڈیکل اسٹور پہنچ جاتے ہیں اور گولیوں کے سہارے جلد سے جلد ٹھیک ہونا چاہتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معمولی بیماریوں کا علاج قدرتی چیزوں کے ذریعے زیادہ بہترانداز میں ہوسکتا ہے اور انسان دوائیوں کے سائیڈ ایفیکٹس سے بھی بچ سکتا ہے۔ کھلی فضا میں رہنا ، اپنے جسم کو مناسب انداز میں سورج کی روشنی دینا،زیادہ بیٹھنے اور لیٹنے سے پرہیز کرنا ، زیادہ سے زیادہ پانی پینا اور چہل قدمی کرنا، وغیرہ ایسے طریقے ہیں جنھیں چھوڑکر ہم گولیوں کے ذریعے کیلشیم اور وٹامن لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم اگر تھوڑا سا پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہمارے باپ دادا کے زمانے میں دوائیوں کی اتنی کثرت نہیں تھی۔اس وقت اگرکوئی بندہ بیمار ہوتا تووہ صدقہ خیرات کے ذریعے علاج کی کوشش کرتااور دو نفل پڑھ کر اللہ سے اپنی صحت کے لیے دعا مانگتااور اس کے بعد دوا کا بندوبست کرتا ، لیکن آج ہم نے اس ترتیب کو الٹ کردیا ہے اوریہی وجہ ہے کہ آج بیماریاں بھی بڑھ گئی ہیں اور میڈیکل اسٹورز بھی۔

زمانے کی تیزرفتاری نے آج کے انسان کو بھی تیز رفتار بنادیا ہے ۔آج کا انسان جہاں دوسرے معاملات میں شارٹ کٹ کا خواہش مندہے ، وہیں وہ خوراک کے معاملے میں بھی زیادہ جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتا ۔بے تحاشا مصروفیت نے انسان کو مجبور کردیا ہے کہ وہ مصنوعی خوراک اور فریز شدہ چیزوں (Frozen Items)کو استعمال کرے ، کیونکہ اس میں محنت کی ضرورت نہیں پڑتی ،بس پیکٹ کھولا ، خوراک نکالی اور فرائی کرکے کھالی۔اسی سہل پسندی نے بیکریز کے رجحان کو فروغ دیا۔

مصنوعی خوراکوں اور Frozen Itemsپر کی گئی تحقیق اور اس کے نقصانات اگر آپ پڑھ لیں تو آپ کے ہوش اڑجائیں گے ۔بریڈز ، کیک، بسکٹ ، نوڈلز اور مٹھائیوں میں میدے کا استعمال ہوتا ہے جو کہ انسانی نظام انہضام کے لیے ایک خطرناک چیز ہے۔بیکری یا گھر میں فریز شدہ خوراک کو ہم محفوظ سمجھتے ہیں لیکن ریسرچ بتاتی ہے کہ فریج میں پڑی چیزوں پرجیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ، ان کے ذائقے اور اثرات میں بھی فرق آنا شروع ہوجاتا ہے۔گھر میں جو گوشت ، سبزی اور پھل فریز کیا جاتا ہے ، عام طورپر یہ چیزیں شاپر میں ہوتی ہیں اورشاپر کے اندر پانی کے رہ جانے والے قطرے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زہریلے بننا شروع ہوجاتے ہیں اورپھر جب یہ خوراک انسان استعمال کرتا ہے تو بے شمار قسم کی بیماریاں اس کو دبوچ لیتی ہیں۔

تیسری چیز جس نے ہماری صحت کی خرابی میں آخری کیل ٹھونکی اور ہم جوانی میں ہی شوگر،بلڈپریشر اور بے شمار بیماریوں کا شکار ہوگئے ، وہ ہمارے خیالات اور سوچیں ہیں۔یہ بھی وہInput ہے جو ہم اپنے جسم کو دیتے ہیں۔اپنی روزمرہ زندگی میں ہم جس طرح کی چیزیں دیکھتے اور سنتے ہیں ، ان ہی کے مطابق ہمارے خیالات بنتے ہیں ۔یہ خیالات عادات میں بدلتے ہیں اور عادات ہمارے کردار میں ۔اگر ایک انسان صبح اٹھنے کے ساتھ ہی موبائل اٹھاکر فیس بک دیکھنا شروع کرتا ہے اور رات کوتب تک نہیں سوتا جب تک کہ چیختے چلاتے اور گلہ پھاڑتے اینکروں کے مایوسی بھری تجزیے نہ سن لے تو پھر اس کے ذہن میں منفی سوچوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔انھی مایوسانہ اور منفی سوچوں نے معاشرے کے عمومی مزاج کو منفی بنادیا ہے اور اس کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں معاشرے میں حرص، لالچ ، دھوکہ دہی اور خود غرضی زیادہ دیکھنے میں ملتی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق ہمارے ذہن میں صرف 30سیکنڈز تک اسٹریس کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔جب ہم منفی سوچوں او ر اسٹریس کو 30سیکنڈزسے زیادہ بڑھالیتے ہیں تو یہ ہمارے دماغ کے مسلز کو کمزور کرنا شروع کردیتے ہیں ۔کورٹیسول(Cortisol) کی مقدار زیادہ ہوجانے کی وجہ سے سیلز ٹوٹنا شروع ہوجاتے ہیں جس سے ہمارے سوچنے ، سمجھنے اور برداشت کرنے کی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہے۔اس صورت حال میں ہارٹ اٹیک کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ایکسر سائز بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ایکسر سائز سے انسان کے دماغ میں خون پہنچتا ہے اور یہ خون گلوکوز کی مدد سے ذہن کے زہریلے مادوں کو ختم کرتا ہے ۔اسی سے نیورانز زیادہ تعداد میں پیدا ہوتے ہیں جس سے ہمارے سوچنے ، سمجھنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
ایک صحت مند جسم کو بھرپور نیند کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اگر کسی انسان کی نیند کم ہو تواس کے فوکس کرنے کی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہے ۔رات کے ساتھ ساتھ دِن کی نیند( قیلولہ) بھی انسان کی کارکردگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔NASAنے اس موضوع پر ایک ریسرچ کی ، جس کے بعد معلوم ہوا کہ صرف 26منٹ قیلولہ کرنے سے ان کے پائلٹس کی کارکردگی میں34فی صداضافہ ہوا۔

پروفیشنل زندگی میں انسان صبح سے شام تک مصروف رہتا ہے۔3بجے کے بعد دماغ میں بائیو کیمیکلز کی جنگ شروع ہوجاتی ہے،جس میں ایک طرف جاگنے اور کام کو نمٹانے کی کوشش ہوتی ہے تو دوسری طرف بار بار یہ تقاضا ہوتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ کربس آنکھ جھپکالو۔اس صورت حال کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور کام بھی ٹھیک طریقے سے نہیں ہوتا۔اس لیے ضروری ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی ، لیکن تھوڑا سستا لینا چاہیے تاکہ ذہن تروتازہ ہوجائے۔

ایک عام عادت یہ بھی ہے کہ یہاں اگر کوئی شخص کسی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے توعلاج کروانے کے بجائے وہ یہ کہہ کرخود کو دلاسا دیتا ہے کہ یہ تو ہماری خاندانی بیماری ہے ۔میرے والد کو اور فلاں ، فلاں کو بھی یہ مرض لاحق تھا ۔یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جس کو آج کی جدید تحقیق نے غلط ثابت کیا ہے۔

ڈاکٹر برٹیل مرکلنڈ کہتے ہیں کہ انسان کے مزاج اور اس کی صحت پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں 75%ہاتھ اس لائف اسٹائل کا ہے ، جو انسان اپنی روزمرہ زندگی میں اپناتا ہے ۔وہ جس طرح کے ماحول میں رہتا ہے ، جس طرح کی خوراک کھاتا ہے اور جس طرح کے خیالات رکھتا ہے ، ان سب چیزوں کابراہ راست اثر اس کی جسمانی اور ذہنی صحت پر ہوتا ہے ،جبکہ موروثی بیماریوں کاامکان صرف 25فی صد ہوتاہے۔اگر کسی کے خاندان میں ہارٹ اٹیک کی روایت پائی جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ اس فردپر بھی ہارٹ اٹیک کا حملہ ہو،وہ اپنے لائف اسٹائل کو تبدیل کرکے اس چیز کو مینج کرسکتا ہے۔
تان اسی سوال پر آکر ٹوٹ جاتی ہے کہ پھر ایک صحت مند زندگی کے لیے ہمیںکیا کرنا چاہیے؟

اس حوالے سے رابرٹ ویلڈنگرنے 75سال پر مشتمل ایک طویل تحقیق کی،جس میں اس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو انسان کی عمر کو بڑھاتے ہیں ۔اس تحقیق میں 724لوگ شامل تھے ۔باقی تو فوت ہوگئے البتہ 60لوگ ایسے تھے جو طویل عمر تک زندہ رہے ۔جب رابرٹ نے ان کی زندگیوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان افراد میں تین عادات ایسی تھیں ،جن کی بدولت یہ لمبا عرصہ زندہ رہے۔

یہ اپنے کام سے عشق کرنے والے لوگ تھے۔یہ ہمیشہ سیکھتے رہتے اور اپنے آپ کو اپ گریڈ کرتے رہتے۔
دوسری چیز، یہ لوگ رشتے نبھانے والے تھے۔یہ ناراض لوگوں کو جاکر مناتے تھے ۔یہ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے اور آگے بڑھ جانے والے تھے۔
تیسری عادت ان میں یہ تھی کہ ان کے پاس خدشات نہیں تھے۔ان کے دِل میں یہ فکرنہیں تھی کہ کل کیا ہوگا؟وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جس رب نے ماضی سے آج تک پہنچایا تو مستقبل میں بھی اس نے ہمارے لیے کوئی نہ کوئی بندوبست کیاہوگا۔

اندیشہ انسان کو ناامید کردیتا ہے اور ناامیدی ایک ایسی بیماری ہے کہ اس کے بعد انسان مزید ذہنی بیماریوں کا شکارہونا شروع ہوجاتا ہے۔ماہرین کے نزدیک انسان کے سارے مسائل کی جڑ اس کے دماغ کے سوچنے کا طریقہ ہے۔ایک کہاوت ہے:
’’ مضبوط دماغ زندہ رہتا ہے نہ کہ مضبوط جسم ۔‘‘ تھکاوٹ کے بعدجسم کام کرنا چھوڑدیتا ہے لیکن اگرانسان ذہنی طورپر تازہ دم ہوتوتھکن کے باوجود بھی وہ کام کرسکتا ہے۔انسانی جسم میں دماغ ایک عظیم تحفہ ہے ، جس کی حفاظت اور اس کا خیال رکھنا بہت اہم ہے۔

Related Posts